کتاب: روشنی - صفحہ 34
آپ ان شاء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے۔‘‘ اسی طرح قرآن میں حضرت یوسف علیہ السلام کے خواب میں گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو ان کا سجدہ کرنے کا جو ذکر آیا ہے وہ بھی وحی الٰہی ہونے کی وجہ سے حکم الٰہی تھا، یعنی خواب کی شکل میں یوسف علیہ السلام کے گیارہ بھائیوں اور باپ اور ماں کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ یوسف کو سجدہ کریں، لیکن اس سجدہ کا ایک خاص وقت مقرر تھا اور وہ وقت یہ تھا کہ یوسف علیہ السلام اپنی مظلومت اور مغلوبیت کے مرحلے سے نکل کر نبوت و بادشاہت کے مرحلے میں داخل ہو جائیں اور ان کے ظالم اور انسانیت سے عاری بھائی ان کے پیروں پر گر کر اپنی خطاؤں کا اعتراف کر لیں اور اپنے گناہوں سے سچی توبہ کر لیں۔ بعض مفسرین نے جو یہ لکھا ہے کہ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں اور باپ اور ماں نے ان کو جو سجدہ کیا تھا وہ سجدۂ تعظیمی تھا، سجدۂ عبادت نہ تھا اور سجدۂ تعظیمی سابقہ شریعتوں میں جائز تھا، اس شریعت میں سجدۂ تعظیمی اور سجدۂ عبادت دونوں حرام ہیں۔ تو یہ دعویٰ اپنے پیچھے کتاب و سنت سے کوئی دلیل نہیں رکھتا اور اگر اس کو اپنے ذہن سے سجدۂ تعظیمی قرار دے کر سابقہ شریعتوں میں اس کو جائز مان لیا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ سابقہ شریعتوں میں معصوم اور غیر مکلف بچوں کو قتل کرنے کی کوشش بھی ، بلکہ فعلًا قتل کر دینا بھی جائز تھا ، کیونکہ ابراہیم علیہ السلام نے خواب کی بنیاد پر اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کرنے کی کوشش کی تھی، موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے ان کو فرعون سے بچانے کے لیے الہام کی بنیاد پر دریا میں ڈال دیا تھا اور خضر علیہ السلام نے ایک معصوم بچے کی جان لے لی تھی، جب کہ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ مذکورہ سارے واقعات اللہ تعالیٰ کے صریح احکام کی بجاآوری سے عبارت تھے، کسی شرعی حکم کے تحت انجام نہیں دیے گئے تھے، اور یوسف علیہ السلام کا سجدہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جو حکم بھی چاہے دے سکتا ہے ، جس کی بجا آوری فرض ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کسی حکم میں جواب دہ نہیں ہے۔ اس مقام پر بھائیوں اور باپ اور ماں کے اپنا سجدہ کرنے کے بعدیوسف علیہ السلام نے اپنے والد ماجد سے جو کچھ فرمایا تھا وہ قابل غور ہے: