کتاب: روشنی - صفحہ 33
بہتر ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا: ان میں سے بہتر کو لے لو۔ یہ وہ رات تھی جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نہیں دیکھا یہاں تک کہ وہ دوسری رات آپ کی خدمت میں اس حالت میں آئے جس میں آپ کا دل تو دیکھتا تھا اور آنکھ سوتی تھی اور دل نہیں سوتا تھا۔ اسی طرح انبیاء علیہم السلام ہیں کہ ان کی آنکھیں سوتی تھیں اور ان کے دل نہیں سوتے تھے۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کے راوی شریک بن عبداللہ مدنی ہیں جو سچے تو تھے، لیکن روایت حدیث میں غلطیاں کرتے تھے۔ اس حدیث میں بعض باتیں دوسری صحیح حدیثوں کے خلاف ہیں جن کے ذکر کا یہ موقع نہیں۔
اب جب کہ یہ بات ثابت ہو چکی کہ انبیاء علیہم السلام کے دل ہر وقت بیدار رہتے ہیں تو یہ بھی ثابت ہو گیا کہ ان کے دل بیداری اور نیند دونوں حالتوں میں وحی الٰہی وصول کرنے کے قابل رہتے تھے، بایں معنی کہ شیطان کو ان کے دلوں میں کسی بھی وقت وسوسہ اندازی کرنے کا اختیار حاصل نہیں تھا۔
انبیاء علیہم السلام کے خواب کے وحی الٰہی ہونے کا مطب یہ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے عبارت تھے ۔ مثال کے طور پر ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھاتو یہ تھا کہ وہ اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کر رہے ہیں، لیکن مطلب یہ تھا کہ ’’اسماعیل کو ذبح کرو‘‘اسی وجہ سے آئندہ نبی ہونے والے بیٹے نے خواب سنتے ہی اس کو حکم قرار دیا، ارشاد الٰہی ہے:
﴿ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَى قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ ﴾ (الصافات:۱۰۲)
’’جب وہ اس کے ساتھ دوڑنے کے قابل ہو گیا تو اس نے کہا:’’ اے میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں غور کر کے بتا، تیرا کیا خیال ہے؟‘‘ اس نے کہا: ’’ابا جان! جو کچھ آپ کو حکم دیا جارہا ہے کر ڈالیے