کتاب: روشنی - صفحہ 31
یہ بات کہ انبیاء علیہم السلام کی صرف آنکھیں سوتی ہیں، ان کے دل ہمیشہ بیدار رہتے ہیں صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں ’’باب التخفیف فی الوضوء‘‘ کے تحت جو حدیث نقل کی ہے اس میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ تہجد کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ:
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے اور سو گئے ، یہاں تک کہ زورزور سے سانس لینے لگے۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہے :
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خراٹے سنے۔‘‘ پھر مؤذن آیا اور آپ کو نماز کی اطلاع دی، آپ اس کے ساتھ نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔‘‘
یہ حدیث نقل کرنے کے بعد امام بخاری نے امام علی بن عبداللہ مدینی کے شیخ سفیان بن عیینہ کا قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے اپنے شیخ عمرو بن دینار مکی سے کہا کہ لوگوں کا بیان ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سوتی ہیں آپ کا دل نہیں سوتا۔‘‘اس پر عمرو نے کہا: میں نے عبید بن عمیر کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ’’ انبیاء علیہم السلام کا خواب وحی کا درجہ رکھتا ہے۔‘‘انہوں نے اپنے اس قول کی دلیل میں سورۂ الصافات کی آیت نمبر ۱۰۲ کا حوالہ دیا جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خواب کا ذکرآیا ہے کہ وہ اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کر رہے ہیں۔
مذکورہ حدیث سے وجہ استدلال یہ ہے کہ اگر انبیاء کا خواب وحی کا درجہ نہ رکھتا تو ابراہیم علیہ السلام کا اس کی بنیاد پر اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا لیے آمادہ ہونا جائز نہ ہوتا۔
امام بخاری نے اس حدیث میں مذکور نیند میں انبیاء علیہم السلام کے دلوں کے بیدار رہنے سے متعلق عبید بن عمیر کا جو قول نقل کیا ہے وہ اُن دو طویل حدیثوں سے ماخوذ ہے جن میں سے پہلی حدیث و ہ کتاب الاعتصام، باب الاقتداء بسنن رسول اللّٰہ صلي الله عليه وسلم کے تحت لائے ہیں (باب ۲، حدیث نمبر ۷۲۸۱) اور دوسری حدیث کتاب التوحید ، باب ما جاء فی قولہ عزوجل: ﴿وَکَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا ﴾ کے تحت لائے