کتاب: روشنی - صفحہ 29
من الاعتقادیات فعلیہ أن یثبت بنص من أئمۃ الکلام وإن کان من الفرعیان فیلزم أن یبنی بنیانہ علی القول الراجح من أئمۃ المذاہب۔ فاذا فعل ذلک فلا یکون منا ان شاء اللّٰہ تعالی إلا الحسنی۔))
’’اگر علماء میں سے کوئی یہ دعویٰ کرے کہ ہم سے کسی حکم میں غلطی ہوئی ہے ، تو اگر یہ غلطی عقائد سے متعلق ہے تو اس پر یہ لازم ہے کہ وہ اس کو ائمہ کلام کی تصریح سے ثابت کرے اور اگر وہ غلطی فروع کے قبیل سے ہے تو اپنے دعویٰ کی بنیاد ائمہ مذاہب ( فقہاء) کے راجح قول کو قرار دے ، اگر وہ ایسا کرے گا تو ان شاء اللہ ہماری طرف سے بہتری ہی کا اظہار ہو گا۔‘‘[1]
اگر عقائد کا ماخذ علم کلام ہے اور شرعی اعمال کا ماخذ فقہ تو پھر اللہ و رسول کہاں گئے؟ کیا ایسے لوگوں میں اللہ کے ولی پیدا ہو سکتے ہیں؟ اہل سنت والجماعت کے نزدیک تو تمام مومنین اللہ کے ولی ہیں۔ امام طحاوی حنفی اسلامی عقائد کی کتاب میں فرماتے ہیں:
((والمؤمنون کلہم اولیاء الرحمن واکرمہم عنداللّٰہ أطوعہم واتبعہم للقرآن۔))
’’تمام مومنین رحمن کے ولی ہیں اور ان میں اللہ کے نزدیک معزز ترین وہ ہیں جو قرآنی احکام کی سب سے زیادہ اطاعت اور پیروی کرتے ہیں یا اطاعت و پیروی کرنے والے ہیں۔‘‘
اور چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع بحکم خداوندی ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع اللہ ہی کی اطاعت و اتباع ہے، اس طرح قرآن کی اطاعت و اتباع کے ساتھ سنت کی اطاعت و اتباع بھی فرض قرار پائی۔اس تناظر میں اسلامی عقائد و اعمال کے ماخذ کتاب و سنت ہوئے، نہ کہ علم کلام جو حق و باطل کا مجموعہ ہے اور نہ کہ فقہ جو
[1] مولانا خلیل احمد، المہند علی المفند، ص: ۳۲، ۳۳.