کتاب: روشنی - صفحہ 28
حدیث کی شاہد بن گئی ، اسی وجہ سے امام ترمذی نے ابو الدرداء کی حدیث کو شاہد کی وجہ سے صحیح قرار دیا ہے۔ قرآن پاک کی سورۃ یونس کی آیت میں جن لوگوں کے لیے عمدہ خواب کو خوش خبری کہا گیا ہے ان سے مراد ’’اولیاء اللہ‘ ‘ ہیں جن کا ذکر ایک آیت پیشتر آیا ہے، ارشادِ الٰہی ہے: ﴿ أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (62) الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ ﴾ (یونس:۶۲، ۶۳) ’’غور سے سن لو، درحقیقت اللہ کے دوستوں کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور جو تقویٰ شعار تھے۔‘‘ قرآن پاک کی یہ واحد آیت ہے جس میں ’’اولیاء‘‘ کا ذکر اللہ کے ساتھ اضافت کی شکل میں آیاہے اور ان کی صفت’’ ایمان و تقویٰ‘‘ بتائی گئی۔ ایمان و تقویٰ کی اس صفت نے جہاں ہر مومن و متقی کو اللہ کا ولی قرار دے دیا ہے وہیں اُن تمام لوگوں کو ولایت کی صفت سے محروم کر دیا ہے جو ایمان و تقویٰ سے موصوف نہ ہوں، اس وضاحت کی روشنی میں صوفیا کے حلقوں میں جن لوگوں کو اولیاء اللہ کہا جاتا ہے وہ قرآن پاک کی مذکورہ آیت کے بموجب اولیاء اللہ نہیں ہیں ، کیونکہ اپنے عقائد کے قرآن و سنت کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے ان کا ایمان وہ نہیں ہے جو اللہ و رسول کو مطلوب ہے اور ان کی عبادتوں اور اوراد و اذکار میں خودساختہ اور من گھڑت اعمال کے داخل ہو جانے کی وجہ سے وہ اہل تقویٰ میں بھی داخل نہیں ہیں، کیونکہ اللہ و رسول کی نگاہ میں متقی وہ ہے جو کتاب و سنت کا متبع ہو اور بدعتوں سے اس کی زندگی پاک ہو۔ میں نے ابھی جو کچھ عرض کیا ہے وہ محض دعویٰ نہیں ہے ، بلکہ صوفیا کے اپنے اعترافات پر مبنی ہے۔ چنانچہ ایک مشہور صوفی جو خیر سے فخر المحدثین کے لقب سے بھی ملقب تھے ، فرماتے ہیں: (( فلو ادعی أحدٌ من العلماء إنا غلطنا فی حکم، فان کان