کتاب: روشنی - صفحہ 245
مردود ہے۔‘‘
کیا حیض کی حالت میں اور اس طہر میں جس میں مباشرت ہوچکی ہو طلاق دینا اس طریقے کے خلاف نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ نے سورۃ طلاق میں بتایا ہے اور اس طریقے سے متعارض نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی تفسیر کرتے ہوئے اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا ہے اس تناظر میں کیا حیض کی حالت میں دی جانے والی طلاق کو وقوع پذیر قرار دینا اللہ اور رسول کے حکم کو چیلنج کرنا نہیں ہے؟
اگر ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں مرہ فلیراجعھا سے مراد اصطلاحی رجوع ہے لغوی رجوع نہیں توکیا ثم لیمسکھا حتی تطہر کہنا تحصیل حاصل نہیں ہے؟ اور اگر ایک طلاق پڑگئی تھی اور انھوں نے اپنی بیوی کو رجوع بھی کرلیا تھا تو پھر حدیث میں طلاق کا طریقہ بتانا کس غرض کے لیے تھا؟ کیا حیض میں طلاق دینے کا کفارہ بیان کرنے کے لیے؟
حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں مذکورہ حدیث اور اس موضوع سے متعلق دوسری چند حدیثوں کی شرح میں جس طوالت سے کام لیا ہے اور حیض و طہر کی طلاقوں کے قائلین کی جس قوت سے وکالت کی ہے اور ان کے جن دلائل کے نمونے پیش کیے ہیں ان میں اس قدر جھول ہے کہ اگر صرف انہی دلائل کا جواب دیا جائے تو ایک اچھی خاصی کتاب بن سکتی ہے۔
پھر ابن حجر نے اس بحث کو جن الفاظ پر ختم کیا ہے ان میں یہ صراحت کردی ہے کہ یہ طویل بحث انھوں نے اپنی دلی خواہش پر نہیں، بلکہ کسی کی درخواست پر تحریر فرمائی ہے اس سے یہاں اس مسلکی تعصب کا پتہ چلتا ہے جو اس وقت مصر میں موجود تھا وہیں امام ابن تیمیہ اور حافظ ابن القیم کی مخالفت ایک فیشن بن چکی تھی۔[1]
[1] فتح الباری ص ۲۳۴۰، ج ۲.