کتاب: روشنی - صفحہ 244
العدۃ التی امر اللہ أن تطلق لہا النساء۔))[1]
’’اس کو حکم دو کہ وہ اس کو رجوع کرلے اور اس کو روکے رکھے یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائے، پھر اسے حیض آئے اور پھر وہ پاک ہوجائے اور پھر اگر چاہے تو اس کو روکے رکھے اور چاہے تو اس کو ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دے، یہ ہے وہ عدت جس کے لیے اللہ نے یہ حکم دیا ہے کہ عورتوں کو اس میں طلاق دی جائے۔‘‘
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی بیوی کے حیض کی حالت میں یا اس طہر میں جس میں اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان ازدواجی تعلق قائم جوچکا ہے، اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو وہ طلاق پڑے گی یا نہیں؟
جمہور فقہاء کے نزدیک حالت حیض اور اس طہر میں جس میں میاں بیوی کے درمیان قربت ہوچکی ہو، طلاق دینا اللہ اور رسول کے حکم کی خلاف ورزی ضرور ہے، مگر یہ طلاق پڑجاتی ہے، جبکہ امام ابن تیمیہ اور حافظ ابن القیم کے نزدیک یہ طلاق نہیں پڑتی۔
آگے بڑھنے سے قبل جمہور فقہاء کے اس حکم پر مختصر تبصرہ یہ ہے کہ اس حکم کے مطابق اللہ و رسول نے جس کام کا حکم دیا ہے یا جس کام سے روکا ہے اس کی خلاف ورزی گناہ تو ضرور ہے مگر شرعی اعتبار سے اس کو وجود مل جاتا ہے، مثال کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو اب اگر کوئی اس طرح نماز نہیں پڑھتا جس طرح احادیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تھے تو اس کی نماز شرعاً ہوجائے گی، البتہ وہ گنہگار ہوگا؟!!
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
((من أحدث فی امرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔)) [2]
’’جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس کی نہیں ہے تو وہ
[1] بخاری : ۵۲۵۱، مسلم :۱۴۷۱.
[2] صحیح بخاری : ۲۶۹۷، صحیح مسلم : ۱۷۱۸.