کتاب: روشنی - صفحہ 243
شوہر کے گھر میں سکونت اختیار کرنے اور اس سے نہ نکلنے کا حکم دیا ہے اور شوہروں کے گھروں کو ان کے گھروں سے تعبیر کیا ہے، اس لیے نہیں کہ رجعی مطلقہ عورتیں بیویوں کے حکم میں ہیں۔ مذکورہ بالا وضاحت کی روشنی میں امام ابن تیمیہ اور ابن القیم کے اس حکم کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے کہ ایک مجلس میں اور عدت کے اندر تین طلاقیں ایک ہی ہیں۔ شرعی طلاق کا وقت اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب بنا کر اہل ایمان کو طلاق دینے کے جو احکام دیے ہیں وہ سورۃ طلاق کے بالکل آغاز میں بیان کردیے گئے ہیں، ارشاد ربانی ہے: ﴿ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ ﴾ (الطلاق:۱) ’’اے نبی! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو انھیں ان کی عدت کے لیے طلاق دو اور عدت کو شمار کرو اور اللہ اپنے رب سے ڈرو۔‘‘ عدت کے لیے طلاق دینے کا مطلب ہے کہ عورتوں کو اس وقت طلاق دی جائے جب عدت شروع ہوتی ہے یعنی عدت کے بالکل آغاز میں اس سے یہ حکم نکلتا ہے کہ عورتوں کو نہ تو حیض کی حالت میں طلاق دی جائے اور نہ اس طہر (پاکی) میں جس میں شوہر اور بیوی کے درمیان فطری تعلق قائم ہوچکا ہو۔ اس قرآنی حکم کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ارشاد میں مزید تفصیل سے بیان فرمادیا ہے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع کیا اور اس کے حکم کے بارے میں دریافت کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مرہ فلیراجعھا، ثم لیمسکھا حتی تطھر، ثم تحیض ثم تطھر، ثم أن شاء أمسک وإن شاء طلق قبل أن یَمَسَّ، فتلک