کتاب: روشنی - صفحہ 242
یہاں یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ فقہاء نے ان عورتوں کو بیویوں ہی میں شمار کیا ہے جن کو رجعی طلاق دی گئی ہو اور وہ عدت کے اندر ہوں، اس کی دلیل یہ ہے کہ مطلقہ رجعیہ کو شوہر کے گھر میں رہنے اور اس سے نفقہ اور خرچ لینے کا حق ہے اور اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ:
﴿ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ ﴾ (الطلاق:۱)
’’ان کو ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں الا یہ کہ وہ کسی صریح برائی کی مرتکب ہوں۔‘‘
لیکن حق بات یہ ہے کہ رجعی مطلقہ کو بیوی قرار دینا وہم و خیال کے سوا کچھ نہیں ہے، چنانچہ اگر شوہر عدت کے اندر اندر اس سے رجوع نہ کرے اور عدت گزر جائے تو پھر وہ ایسی عام اجنبی عورتوں کی مانند ہوجائے گی اور اس کے شوہر کو اس کو اپنی زوجیت میں لانے کے لیے وہی کچھ کرنا پڑے گا جو ایک مرد کو پہلی بار کسی عورت سے نکاح کے لیے کرنا پڑتا ہے اور اس کی اس سابقہ بیوی کو یہ حق حاصل ہوگا کہ چاہے اس کی زوجیت میں آنا قبول کرے یا مسترد کردے۔
درحقیقت رجعی مطلقہ کو یا جس عورت کو رجعی طلاق دی گئی ہو، شوہر کے گھر میں رہنے کا جو حکم دیا گیا ہے وہ اس وجہ سے نہیں کہ وہ اس کی بیوی کے حکم میں ہے، بلکہ صرف اس وجہ سے دیا گیا ہے کہ طلاق کے بعد اگرچہ وہ اس کی بیوی نہیں رہی، لیکن شوہر کو یہ حق ہے کہ وہ اس کو نکاح کے بغیر کسی اور طریقے سے اپنی زوجیت میں واپس لے لے جس کو مسترد کرنے کا بیوی کو کوئی حق نہیں ہے، ان تمام باتوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک چھوٹے سے فقرے میں بیان کردیا ہے۔
((لا تدری لعل اللہ یحدث بعد ذلک امرا۔))
’’تمھیں نہیں معلوم، شاید اللہ اس کے بعد (رجوع) کی کوئی صورت پیدا کردے۔‘‘
یہ ہے وہ اصل سبب جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے رجعی طلاق دی جانے والی عورت کو