کتاب: روشنی - صفحہ 241
اس طرح ایک مجلس میں جن طلاقوں کا تعین ہوجاتا ہے وہ أنت طالق، أنت طالق، أنت طالق کے سوا کچھ اور نہیں ہے جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قرار دیا ہے۔ اب صرف یہ وضاحت باقی رہی ہے کہ رکانہ رضی اللہ عنہ کے تین بار طلاق دینے کے باوجود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو صرف ایک کیوں قرار دیا؟ مگر اس سے قبل میں اس طرح کی طلاقوں کے بارے میں شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ اور ان سے قبل شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد حافظ ابن القیم رحمہ اللہ کے اقوال کا خلاصہ نقل کردینا چاہتا ہوں۔ علامہ ابن باز رحمہ اللہ نے بھی أنت طالق أنت طالق أنت طالق کو ایک ہی طلاق قرار دیا ہے اور پہلے جملہ: أنت طالق کے بعد کے دوسرے اور تیسرے جملوں کو پہلے جملہ کی تاکید قرار دیا ہے بشرطیکہ شوہر کا ارادہ تین طلاقیں واقع کرنے کا نہ ہو۔‘‘[1] شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے اس گراں قدر قول کے بارے میں کوئی رائے زنی چھوٹا منہ بڑی بات شمار ہوگی، مگر حق یہ ہے کہ پہلے أنت طالق کے بعد کے دوسرے اور تیسرے جملے لغو اور بے معنی ہیں، جیسا کہ آگے وضاحت آرہی ہے۔ امام ابن تیمیہ اور ابن القیم کی آرا کا خلاصہ یہ ہے کہ أنت طالق أنت طالق أنت طالق سے صرف ایک ہی طلاق پڑتی ہے، چاہے یہ ایک ہی مجلس میں کہا جائے یا متفرق مجلسوںِ میں بشرطیکہ یہ عدت کے اندر ہو عدت گزر جانے کے بعد نہیں، ان عالی مقام بزرگوں ہی کا یہ قول قرین حق و صواب ہے جس کا سبب درج ذیل ہے: جوں ہی کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ کہتا ہے: أنت طالق تم کو طلاق یا تم نکاح کے بندھن سے آزاد ہو، اسی لمحہ وہ مطلقہ ہوجاتی ہے اور اس کی بیوی نہیں رہ جاتی، بلکہ اس کے لیے ایک اجنبی عورت کی مانند ہوجاتی ہے، ایسی صورت میں وہ عام اجنبی عورتوں کی طرح ’’محل طلاق‘‘ رہتی ہی نہیں کہ دوسری دونوں طلاقوں کو شمار کیا جائے یا تاکید کہہ کر رد کردیا جائے۔ لہٰذا بعد کی طلاقتیں محض لغو ہوتی ہیں تاکیدنہیں۔
[1] فتاویٰ اسلامیہ، ص ۳۰۳، ج۳.