کتاب: روشنی - صفحہ 240
کوئی اور مقصد نہیں ہے اور اس مقصد کے لیے اس سے استدلال درست ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک میں جن صحابی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں ان کا نام رکانہ بن عبد یزید تھا۔ رکانہ بن عبد یزید رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں جس پر ان کو شدید رنج و غم لاحق ہوگیا، کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ((کیف طلقتھا؟ قال: طلقتہا ثلاثًا، قال: فقال: فی مجلس واحد؟ قال: نعم، قال: فإنما تلک واحدۃ، فارجعھا إن شئت۔)) [1] ’’تم نے اس کو کس طرح طلاق دی ہے؟ عرض کیا: میں نے اس کو تین طلاقیں دی ہیں۔ فرمایا: ایک مجلس میں؟ عرض کیا: ہاں، فرمایا: وہ ایک ہی طلاق ہے، چاہو تو اس سے رجوع کرلو…‘‘ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: ’’اس حدیث کی تخریج امام احمد اور حافظ ابویعلی نے کی ہے اور ابن اسحاق کی سند سے اس کو صحیح قرار دیا ہے یہ حدیث اس مسئلے میں ایسی نص ہے جس میں اس طرح کی تاویل کی کوئی گنجائش نہیں ہے جو دوسری روایتوں میں کی گئی ہے۔‘‘[2] یہ حدیث اپنی صحت کے حوالہ سے اگرچہ بعض محدثین کے نزدیک کسی حد تک مختلف فیہ ہے۔ مگر جہاں صحیح مسلم کی حدیث کی شاہد بن سکتی ہے وہیں ایک مجلس میں تین طلاقوں کے ایک شمار ہونے میں نص قاطع ہے جیسا کہ ابن حجر نے صراحت کی ہے۔ حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سوال: ’’فی مجلس واحد؟ نے ایک ہی لفظ سے تین طلاقیں دینے کے احتمال کی جڑ کاٹ دی ہے جس کے قواعد زبان اور امر واقعہ کے خلاف ہونے کو بڑی تفصیل سے بیان کیا جاچکا ہے۔
[1] مسند امام احمد: ۲۳۸۷. [2] فتح الباری، ص ۲۳۳۹، ج۲.