کتاب: روشنی - صفحہ 239
کرکے اپنی پسند کا طریقہ اختیار کرسکتا تھا، لیکن لوگوں نے ایک وقت میں تین طلاقیں دے کر اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ وسعت، ڈھیل اور مہلت کو کھودیا اس بات کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صرف ایک جملہ میں ادا کردیا ہے: ((إن الناس قد استعجلوا فی أمر قد کانت لہم فیہ اناۃ۔)) پھر انھوں نے لوگوں کو اس ناعاقبت اندیشی اور عجلت پسندی کی سزا دینے اور اس سے باز رکھنے کے لیے بحیثیت خلیفہ راشد کے تینوں طلاقوں کو تین ہی نافذ کردیا، ایسا کرکے انھوں نے نہ تو اللہ کے حکم کو منسوخ کیا اور نہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال کیا، بلکہ صرف اتنا کیا کہ لوگوں نے ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے کر اپنے لیے جو تنگی اور جو مشقت پیدا کرلی تھی اس کو انھوں نے اسی طرح نافذ کرکے اس کو درس عبرت بنادیا۔ احادیث کے تتبع سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک میں بیک وقت اور بیک مجلس تین طلاقیں دینے کا صرف ایک واقعہ پیش آیا تھا اور جب آپ کو اس کی خبر ملی تو آپ نے فرمایا تھا: ((أیلعب بکتاب اللہ وانا بین أظھرکم۔))[1] ’’کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل کیا جارہا ہے اور میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔‘‘ یہ حدیث محمود بن لبید بن ابی رافع انصاری اشہلی رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے، یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک میں پیدا ہوئے، لیکن حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا سماع ثابت نہیں ہے[2] اور الاصابۃ میں ابن حجر نے امام بخاری رحمہ اللہ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ان کو شرف صحابیت حاصل ہے۔[3] یہاں اس حدیث سے صرف یہ استدلال کر رہا ہوں کہ تین طلاقیں ایک وقت میں دینے کا واقعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیش آچکا ہے، اس کے سوا اس کے ذکر سے
[1] النسائی : ۳۴۰. [2] فتح الباری ص ۲۳۳۹، ج۲. [3] ص:۳۸۷، ج۳.