کتاب: روشنی - صفحہ 238
ایک مجلس میں تین طلاقوں کی صحیح صورت
ایک مجلس میں تین طلاقوں کی صحیح صورت یہ ہے کہ طلاق دینے والا اپنی بیوی سے تین بار کہے: أنت طالق، أنتِ طالق، أنتِ طالق تم نکاح کے بندھن سے آزاد ہو، تم نکاح کے بندھن سے آزاد ہو، تم نکاح کے بندھن سے آزاد ہو۔ یہی وہ تین طلاق ہے جس کا ذکر حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی اس حدیث میں آیا ہے جو امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کی ہے اور جس کے الفاظ ہیں:
((کان الطلاق علی عہد رسول اللہ صلي الله عليه وسلم وأبی بکر وسنتین من خلافۃ عمر، طلاق الثلاث واحدۃ، فقال عمر بن الخطاب، إن الناس قد استعجلوا فی أمر قد کانت لہم فیہ اناۃ، فلو امضیناہ علیہم فأمضاہ۔))[1]
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد اور ابوبکر کے عہد اور عمر کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں، عمر بن خطاب نے فرمایا: لوگوں نے ایک ایسے معاملہ میں جس میں ان کے لیے وسعت اور ڈھیل کا موقع تھا، جلد بازی شروع کردی ہے، کاش میں ان پر ان تینوں ہی کو نافذ کردوں، سو انھوں نے اسے نافذ کردیا۔‘‘
تشر یح:…اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۲۲۹ میں طلاق دینے کا جو طریقہ بتایا ہے کہ دونوں رجعی طلاقیں ایک ہی بار نہیں، بلکہ دو بار دی جائیں، اس حکم الٰہی میں لوگوں کے لیے طلاق کے معاملے میں آسانی اور وسعت کا موقع تھا بایں طور کہ ایک طلاق دینے کے بعد میاں بیوی اپنے اختلافات اور ناچاقیوں پر سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کے ان کے ازالہ اور ان پر قابو پانے کا کوئی طریقہ استعمال میں لاسکتے تھے اور اپنی سابقہ ازدواجی زندگی بحال کرسکتے تھے یا بصورت دیگر عدت گزر جانے کے بعد دونوں میں سے ہر ایک علیحدگی اختیار
[1] صحیح مسلم : ۳۶۷۳.