کتاب: روشنی - صفحہ 237
﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ﴾ (البقرہ:۲۲۹) ’’طلاق دو بار ہے، پس یا تو بھلے طریقے سے روک لے یا حسن سلوک کے ساتھ رخصت کردے۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں طلاق رجعی دینے کا طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ چونکہ ایک ہی وقت میں اور ایک ہی لفظ سے تین طلاقوں کے تین واقع ہوجانے پر فقہائے احناف کا اتفاق ہے اس لیے اس آیت کی تفسیر میں ایک نہایت ہی مستند حنفی عالم اور مفسر ابوبکر جصاص کا قول نقل کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے جو معتزلی فکر و عقیدہ بھی رکھتے تھے اور معتزلہ شرعی مسائل کے بیان میں عقل سے جتنا کچھ استدلال کرتے تھے وہ محتاج بیان نہیں ہے۔ جصاص فرماتے ہیں: الطلاق مرتان کا تقاضا یہ ہے کہ دونوں رجعی طلاقیں الگ الگ دی جائیں، اگر کسی نے دونوں ایک ساتھ دے دیں تو یہ کہنا جائز نہ ہوگا کہ اس نے دو بار طلاق دی ہے۔ جیسے اگر کوئی آدمی کسی دوسرے آدمی کو ایک ہی بار دو درہم دے دیے تو یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ اس نے دو بار دیے، بلکہ اس کے لیے اس کو دوبار دینا ہوگا۔[1] حافظ ابن القیم نے اس مسئلے کو نہایت واضح مثالوں سے بیان کیا ہے، فرماتے ہیں: ’’اگر لعان کے مسئلے میں کوئی کہے کہ میں چار بار اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں سچا ہوں‘‘ تو اس کی یہ گواہی ایک ہی گواہی شمار ہوگی، اور اگر کوئی قسم کے معاملے میں یوں کہے کہ میں چار بار اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں سچا ہوں‘‘ تو اس کی یہ گواہی ایک ہی شمار ہوگی اور اگر کوئی قسم کے معاملے میں یوں کہے کہ میں پچاس بار اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ شخص فلاں کا قاتل ہے تو یہ ایک ہی قسم ہوگی۔‘‘[2]
[1] احکام القرآن، ص ۴۵۸، ج۱. [2] اعلام الموقعین، ص ۳۸۳، ج۴.