کتاب: روشنی - صفحہ 236
’’جو شخص ہر نماز کے بعد ۳۳ بار اللہ کی تسبیح، ۳۳ بار اس کی حمد اور ۳۳ بار اس کی بڑائی بیان کرے…‘‘ یعنی ۳۳ بار سبحان اللہ، ۳۳ بار الحمد للہ اور ۳۳ اللہ اکبر کہے۔ فرض کیجیے کہ کوئی شخص ہر نماز کے بعد یوں کہتا ہے: ۳۳ بار سبحان اللہ، ۳۳ بار الحمد للہ اور ۳۳ بار اللہ اکبر تو کیا وہ حدیث نبوی پر عمل کرنے والا گردانا جائے گا، یا اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ہر کلمہ ۳۳ بار دہرائے اور اس کی تکرار کرے۔ معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ کہے: أنتِ طالق ثلاثًا یا أنت مطلقۃ ثلاثًا تو اس سے صرف ایک طلاق واقع ہوگی اور ثلاثًا کی قید لغو اور لا یعنی شمار کی جائے گی۔ رہا جملہ امر یہ جس کی مثال ہے: طلق امرأتک ثلاثًاتم اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دو، اس جملہ میں ثلاثًا کا استعمال صحیح ہے جس کا مطلب ہے کہ طلق امرأتک ثلاث تطلیقات یا طلق امرأتک ثلاث مرات تم اپنی بیوی کو تین طلاقیں دو یا تم اپنی بیوی کو تین بارطلاق دو۔ جملہ خبریہ کی مثال ہے: طلق امرأتہ ثلاثًا کسی کے بارے میں خبر دیتے ہوئے کہا جائے: اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں یا تین بار طلاق دی تو اس جملے میں بھی ثلاثًا کی قید قواعد زبان کے مطابق ہے، البتہ خبر دینے والے سے یا طلاق دینے والے سے پوچھا جائے گا کہ اس نے تین طلاقیں کس طرح دی ہیں، جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ مذکورہ بالا وضاحتوں کی روشنی میں ایک لفظ سے تین طلاقوں کی تعبیر بالکل غلط ہے اور اس میں ’’تین‘‘ کی قید لغو ہے لہٰذا ایسی طلاق حکماً تعبیرًاور واقعتہً صرف ایک رجعی طلاق ہے۔ اب تک جو کچھ عرض کیا گیا ہے اس کی مکمل تائید قرآن پاک سے بھی ہوتی ہے اور بلاکسی تاویل کے بصراحت ہوتی ہے اور وہ یہ کہ ایک وقت میں ایک سے زیادہ طلاق دی ہی نہیں جاسکتی، ارشاد الٰہی ہے: