کتاب: روشنی - صفحہ 235
اعتبار ہیں جس کا سبب حسب ذیل ہے۔ (۱)… مذکورہ جملوں میں ثلاثا یا بالثلاث مفعول مطلق محذوف کی صفت ہے، جس کو اگر کھول دیا جائے تو مذکورہ جملے یوں ہوجائیں گے: أنت طالق طلاقًا ثلاثًا یا أنت طالق بثلاث تطلیقات یا أنت مطلقۃ طلاقًا ثلاثا یا أنت مطلقۃ بثلاث تطلیقات۔ مذکورہ تفصیلات کی روشنی میں ایک ہی لفظ میں، ایک ہی لفظ سے یا ایک ہی لفظ کے ساتھ تین طلاقیں دی ہی نہیں جاسکتیں۔اور مذکورہ جملوں میں ’’ثلاثا‘‘یا ’’بالثلاث‘‘ لغو اور باطل ہے۔ اس مسئلے کو مزید واضح کرنے کے لیے عرض ہے کہ طلاق سے متعلق تعبیری جملوں کی تین قسمیں ہیں: (۱)… جملہ انشائیہ (۲)… جملہ امریہ (۳) جملہ خبریہ اوپر ایک لفظ میں تین طلاقیں دینے کی جو مثالیں دی گئی ہیں وہ اگرچہ لفظی اعتبار سے خبر دینے پر دلالت کرتی ہیں، لیکن اپنے مفہوم اور معنی کے اعتبار سے ’’انشاء‘‘ ہیں بایں طور کہ شوہر ان عبارتوں کے ذریعہ اپنی بیوی کو بتارہا ہے کہ ہم جس رشتۂ زواج یا نکاح میں بندھے ہوئے تھے اس رشتہ سے تم کو میں آزاد کر رہا ہوں، پھر اس کے لیے وہ طالق یا مطلقۃ کی تعبیر اختیار کر رہا ہے جو صرف ایک ’’بار‘‘ پر دلالت کرتی ہے اور اس کی صفت ثلاثًا یا باالثلاث بیان کر رہا ہے جو عربی قواعد زبان کے خلاف ہے اور امر واقعہ کے بھی خلاف ہے۔ اوپر جو کچھ عرض کیا گیا ہے اس کی توضیحی دلیل میں ایک صحیح حدیث کے الفاظ پیش کر رہا ہوں، ارشاد نبوی ہے: ((من سبح اللہ فی دبر کل صلاۃ ثلاثًا وثلاثین وحمد اللہ ثلاثا وثلاثین وکبر اللہ ثلاثًا وثلاثین…))[1]
[1] صحیح مسلم : ۱۳۵۲.