کتاب: روشنی - صفحہ 234
رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، نیز صحابہ کرام اور تابعین میں سے کسی نے بھی مذاہب اربعہ میں سے کسی بھی مذہب یا مسلک کی پیروی اور شرعی مسائل اور احکام میں ان کے دائرے میں مقید رہنے کو فرض یا واجب، بلکہ سنت اور مستحب قرار نہیں دیا ہے، خود ان ائمہ نے بھی نہیں جن کی طرف یہ مذاہب منسوب ہیں، ایسی صورت میں ان کے دائرے سے باہر نکلنے اور ان کی مخالفت کرنے کو ناجائز کس طرح کہا جاسکتا ہے، جبکہ خود ان ائمہ کے شاگرد اور ان کے شاگرد بھی اپنے ائمہ کے اجتہادی اقوال کی پابندی کو نہ صرف یہ کہ لازمی نہیں سمجھتے تھے، بلکہ عملاً بہت سے مسائل میں ان کی مخالفت کرتے بھی تھے۔ اب رہا ایک ہی لفظ میں یا ایک مجلس میں تین طلاقوں کا مسئلہ تو اس کا حکم بیان کرنے سے قبل یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ ایک ہی لفظ سے تین طلاقیں دینے کی عملی شکل کیا ہے اور ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے کی صورت کیا ہوتی ہے؟ جب تک یہ نہ سمجھ لیا جائے اس وقت تک اس مسئلے کا شرعی حکم نہیں سمجھا جاسکتا۔ ایک ہی لفظ سے تین طلاقیں دینے کی صورت فقہ کی کتابوں میں یا نکاح و طلاق کے احکام سے متعلقہ کتابوں میں ایک ہی لفظ سے یا ایک ہی لفظ میں تین طلاقیں دینے کی مثال میں اس طرح کے جملے نقل کیے گئے ہیں: ’’أنتِ طالق ثلاثًا، أنتِ طالق بالثلاث، أنتِ مطلقۃ ثلاثا، أنتِ مطلقۃ بالثلاث‘‘ تمہیں تین طلاقیں یا تین طلاقوں کے ذریعہ تم کو طلاق دیتا ہوں۔ مذکورہ چاروں عبارتوں کا مفہوم ایک ہی ہے جس کو آسان اور واضح اردو الفاظ میں ادا کرنا دشوار ہے۔ ان چاروں عبارتوں کا مطلب یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کو مخاطب بنا کر کہے کہ میں تم کو تین عدد طلاقوں کے ذریعہ نکاح اور زواج کے بندھن سے آزاد کرتا ہوں یا آذاد کر رہا ہوں یا تین طلاقوں کے ساتھ تم رشتۂ نکاح یا زواج سے آزاد ہو۔ ایک ہی لفظ سے، یا ایک ہی لفظ میں یا ایک ہی لفظ کے ساتھ تین طلاقوں کے اظہار کی مذکورہ بالا عبارتیں قواعد زبان کے اعتبار سے غلط اور امر واقعہ کے اعتبار سے باطل اور ناقابل