کتاب: روشنی - صفحہ 232
امکان بلکہ وقوع معلوم ہوتا ہے، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ملائکہ تم سے مصافحہ کرتے، اس میں انکشاف سے بھی زیادہ ملاقات و مماسہ کا اثبات ہے۔‘‘ (ص : ۶۶) اس عبارت میں جو دعویٰ کیا گیا ہے اس کی نکارت بیان کرنے سے پہلے یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ صوفیا کے اشغال اور مراقبات سراسر من گھڑت اور خود ساختہ ہیں، لہٰذا ان سے جو یکسوئی اور استغراق بھی پیدا ہو وہ اسی طرح کا استغراق ہے جو ہندو سادھووں، بدہ بھکشووں اور عیسائی راہبوں کو ان کی ریاضتوں، مجاہدات اور مراقبول سے حاصل ہوجاتا ہے، لہٰذا اس استغراق سے فرشتوں جیسی خالص روحانی اور پاکیزہ مخلوق کا انکشاف کیونکر ہوسکتا ہے؟!! رہا مولانا کا یہ دعویٰ کہ اس انکشاف کا امکان، بلکہ وقوع حدیث حنظلہ سے معلوم ہوتا ہے، تو یہ باطل ہے، کیونکہ جیسا کہ میں اوپر حدیث کے اسلوب بیان کی روشنی میں واضح کرچکا ہوں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک: ’’میرے پاس اور ذکر کے موقع پر تمہاری جو ایمان کیفیت ہوتی ہے، اگر تم اس پر برقرار رہو تو فرشتے تم سے تمہارے بستروں اور راستوں پر مصافحہ کرنے لگیں۔‘‘ کا عربی کے اسلوب بیان اور ’’لو‘‘ کے استعمال سے یہ مطلب ہے کہ: ’’چونکہ تمہارا اس ایمانی کیفیت اور اس خشیت الٰہی نیز اس جلائے قلبی پر برقرار رہنا جو میری مجلسوں اور ذکر کے موقعوں پر تمھیں حاصل ہوتی ہے ناممکن ہے اس لیے فرشتوں کا تم سے علانیہ مصافحہ کرنا بھی ناممکن ہے۔‘‘ حدیث حنظلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اسلوب بیان کی مثال سورۃ الانبیاء کی ۲۲ ویں آیت کا درج ذیل فقرہ ہے: ﴿ لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا ﴾ (الانبیاء:۲۲) ’’اگر آسمان اور زمین میں، اللہ کے سوا اور بھی معبود ہوتے تو دونوں درہم برہم ہوجاتے۔‘‘