کتاب: روشنی - صفحہ 231
نہ ہوتا تو دوزخ و جنت اور آخرت سے متعلق وہ باتیں لوح قلب پر نقش رہتیں اور ان پر نسیان طاری نہ ہوتا۔ تو عرض ہے کہ اگرچہ کسی حد تک یہ استنتاج صحیح ہے، لیکن حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ سے ان کے تاثرات سننے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ہے اس میں آپ نے اپنی مجلسوں میں حاضری کی حالت میں پیدا ہونے والی جن واردات کی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ مذکورہ حدیث کے مطابق ذکر کے نتیجے میں بھی پیدا ہوتی ہیں اور ظاہر سی بات ہے کہ ذکر کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلسوں میں حاضری اور آپ کا قرب ضروری نہیں تھا یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ حدیث پاک میں مذکور ذکر سے خصوصی طور پر اور کتاب و سنت میں مذکور ذکر سے عمومی طور پر وہ ذکر مراد ہے جو کتاب و سنت میں منصوص ہو، رہے صوفیا کے من گھڑت اذکار و اوراد تو وہ باطل اور مردود ہیں، کیونکہ ذکر عبادت ہے اور عبادت کی کسی بھی قسم کے لیے شریعت میں معتبر ہونے اور عند اللہ مقبول ہونے کی شرط یہ ہے کہ اللہ یارسول نے اس کو بیان کردیا ہو اور قرآن پاک کا شمار ذکر کی نہایت اعلیٰ قسم میں ہوتا ہے جس کی حضور قلب کے ساتھ تلاوت سے بسااوقات جنت و دوزخ کے مناظر، آخرت کے احوال اور قیامت وغیرہ کے مشاہد آنکھوں کے پردے پر گھومنے لگتے ہیں۔ حدیث حنظلہ میں جس چیز پر زور دینا مقصود ہے وہ یہ کہ تعلق زن و شو، بچوں اور دوسرے متعلقین کے امور کی بجا آوری اور حصول رزق کے لیے تگ و دو کی حالت میں اگرچہ تعلق باللہ کی حرارت باقی نہیں رہتی، ایمان کی جلا بخشی ماند پڑجاتی ہے اور فکر و آخرت پر وقتی طور پر پردہ پڑجاتا ہے مگر اس کے باوجود یہ حالت کسی بھی درجے میں معیوب اور مذموم نہیں ہے، ورنہ اس امت کے افضل ترین مرد ابوبکر رضی اللہ عنہ اس سے دوچار نہ ہوتے۔ تھانوی صاحب آگے، ’’حال کشف ملکوت‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت فرماتے ہیں: اشغال و مراقبات سے جب نفس میں یکسوئی و استغراق غالب ہوتا ہے تو حسب مناسبت فطر یہ احیانا ملکوت وغیرہ کا انکشاف ہوجاتا ہے، اس حدیث سے اس کا