کتاب: روشنی - صفحہ 230
رہے تصوف کے شیوخ تو اگر یہ سنت نبوی کے متبع ہوتے تب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کو ان کی ذات سے اور آپ کی صحبتوں کو ان کی صحبتوں سے تشبیہ دینا درست نہ ہوتا اور اب جبکہ تصوف کی بنیادی کتابوں اور ان میں درج صوفیا کے تذکروں سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سنت نبوی سے اس امت سے نسبت کا دعویٰ کرنے والے جو افراد سب سے زیادہ دور رہے ہیں اور اب تک ہیں وہ صوفیا ہیں؛ ان کے اذکار و اوراد، ان کے طریقے، مجاہدات اور ریاضتیں سب من گھڑت اور خود ساختہ ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ صوفیا کے ظاہری اعمال اور ان کے زہد و توکل کے مظاہر سے یہی تاثر ملتا ہے کہ یہ اللہ والے لوگ ہیں اور دنیا اور اس کی دل فریبیوں سے وہ پاک ہیں اور کسی حد تک یہ بات صحیح بھی ہے، لیکن جو لوگ اسلامی تعلیمات سے واقف ہیں اور جن کو یہ معلوم ہے کہ اسلام میں عقائد کی درستگی کے بغیر خصوصیت کے ساتھ کتاب و سنت میں بیان کردہ عقیدۂ توحید کے بغیر اعمال صالحہ، اور زہد و توکل کا کوئی اعتبار نہیں ہے، ان پر یہ بات مخفی نہیں رہ سکتی کہ اس طرح کے شیوخ کی مجلسیں اور ان کی صحبتیں خیر و برکت اور تقرب الی اللہ کا سرچشمہ نہیں ہوسکتیں۔ اوپر نقل کردہ عبارت میں یہ تھانوی صاحب نے جو یہ فرمایا ہے: ’’حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ خدمت مبارک سے علیحدہ ہوکر تعلقات میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور بہت سی باتیں یاد نہیں رہتیں اس سے یہ شبہ نہ کیا جائے کہ اس نسیان کا سبب اشغال تعلقات تھا، کیونکہ خود یہ تعلق اور اشغال بھی مبنی غیبت و ضعف وارد پر تھا جس کا سبب وہی بعد خدمت نبوی ہے۔‘‘ اس عبارت کا مطلب سادہ لفظوں میں یہ ہے کہ حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلسوں میں آپ کی زبان مبارک سے سنی جانے والی بہت سی باتوں کے بھول جانے کا جو ذکر کیا ہے اس کا سبب بیوی بچوں سے تعلق اور کاروبار زندگی میں مصروف ہوجانا نہیں تھا، بلکہ خود یہ تعلق اور مصروفیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلسوں میں عدم حاضری اور آپ سے دوری کا نتیجہ تھی، گویا اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب مسلسل جاری رہتا اور آپ کی مجلسوں میں حاضری کا سلسلہ منقطع