کتاب: روشنی - صفحہ 23
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے تین خلفاء قائم تھے، جب کہ امر واقعہ یہ ہے کہ تمام صحابہ حق پر تھے۔ رہی خلافت تو خلفائے ثلاثہ کے ساتھ خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بھی برحق تھی جس پر اُمت کا اتفاق ہے اور جو اسلامی عقیدہ میں داخل ہے۔لہٰذا جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اپنے بعد صریح لفظوں میں اپنا خلیفہ نامزد نہیں کیا اسی طرح اس خواب میں ’’رسّی‘‘ کی تعبیر نہیں بتائی ، کیونکہ یہ فتنہ کا سبب بن سکتی تھی جس سے اُمت کو بچانا آپ کے فرائض میں داخل تھا۔ واللہ اعلم بالصواب
خواب پریشان کی مثال
اوپر سچے اور با معنی خوابوں اور ان کی تعبیروں کے تذکرے کے بعد قارئین کے دلوں میں خوابِ پریشان یا شیطانی خواب کو مثال سے سمجھنے اور جاننے کی خواہش کا پیدا ہونا ایک طبعی امر ہے ، لہٰذا عہد نبوی کے اس طرح کے ایک خواب کا ذکر کر رہا ہوں:
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک اعرابی آیا اور عرض کیا:
(( یا رسول اللّٰہ! رأیت فی المنام کأنی رأسی قُطغ، قال: فضحک النبی صلي اللّٰه عليه وسلم ، وقال: إذا لعب الشیطان بأحدکم فی منامہ فلا یحدث بہ الناس۔)) [1]
’’اے اللہ کے رسول! میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میراس سر کاٹ دیا گیا ہے ، راوی کہتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمایا: جب شیطان تم میں سے کسی کے ساتھ اس کے خواب میں کھلواڑ کرے تو اس کو چاہیے کہ وہ اسے کسی سے بیان نہ کرے۔‘‘
اس حدیث کی روشنی میں کسی بھی ڈراونے اور خوفناک خواب کو کسی سے بھی بیان نہیں کرنا چاہیے، بلکہ احادیث کے مطابق بائیں کروٹ ہو کر تین بار تھوک کر اعوذ باللّٰہ من
[1] مسلم: ۵۹۲۷.