کتاب: روشنی - صفحہ 229
نام تصور بھی ہے، اس تناظر میں رؤیت مشاہدہ سے مختلف چیز ہے اور مولانا تھانوی کا اس رؤیت سے صوفیانہ مشاہدہ پر استدلال کرنا درست نہیں ہے۔
اس کے بعد موصوف نے حدیث حنظلہ سے ’’برکت صحبت شیخ‘‘ کا جو نکتہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے وہ خالص صوفیانہ نکتہ ہے جو امر واقعہ کا ترجمان نہیں ہے، فرماتے ہیں:
’’جس طرح مجاہدہ و ریاضت سے کسی کیفیت کا درود ہوتا ہے، اسی طرح شیخ کی محبت اور خطاب سے بھی ہوجاتا ہے، گو اس کو مثل اثر ریاضت کے رسوخ اور بقاء نہیں ہوتا، چنانچہ حضرت حنظلہ کا یہ فرمانا کہ خدمت مبارک سے علیحدہ ہوکر تعلقات میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور بہت سی باتیں یاد نہیں رہتیں، اس سے یہ شبہ نہ کیا جائے کہ اس نسیان کا سبب اشغال تعلقات تھا، کیونکہ خود یہ تعلق اور اشغال بھی مبنی غیبت و ضعف وارد پر ہے جس کا سبب وہی بعد خدمت نبوی ہے۔‘‘ [1]
اصحاب سلوک کے نزدیک ان کے شیوخ اور پیروں کا مقام و مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کم نہیں ہے، بلکہ اگر میں تصوف کی امہات الکتب کے حوالہ سے یہ دعویٰ کروں کہ مشائخ تصوف کو اللہ تعالیٰ کی ربوبیت میں شریک مانا جاتا ہے تو اس میں قطعاً مبالغہ نہ ہوگا، لیکن چونکہ اس وقت میرا مقصد صوفیا کے عقائد کا بیان نہیں ہے اور نہ یہ اس کا مناسب موقع ہی ہے، اس لیے میں حدیث حنظلہ رضی اللہ عنہ سے مولانا تھانوی کے غلط استنباطات کی وضاحت پر اکتفا کروں گا۔
چنانچہ مذکورہ حدیث پاک کی روشنی میں ’’برکت صحبت شیخ‘‘ کا عنوان قائم کرنا خود سو فیصد غلط ہے تو پھر اس عنوان کے تحت بیان کیا جانے والا ہر دعویٰ بدرجہ اولیٰ غلط ہوگا اور یہ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محبوب ربّ العالمین تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو نمونۂ خیر اور اسوۂ حسنہ بنایا ہے اور تمام مسلمانوں کے لیے آپ کے قول و فعل کی اطاعت اور اتباع کو فرض قرار دیا ہے، آپ پر وحی الٰہی نازل ہوتی تھی، آپ کی مجلسوں پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرماتا تھا اور آپ کی زبان مبارک سے نکلنے والا ہر کلمہ حق کا ترجمان تھا۔
[1] مسائل تصوف احادیث کی روشنی میں ص ۶۵۔۶۶.