کتاب: روشنی - صفحہ 228
حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر کو کہتے ہیں، حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ نے جس سبب سے اپنے کو منافق کہہ دیا یا سمجھ لیا تھا اس کو سننے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصویب نہیں فرمائی، بلکہ مومن کی ایمانی کیفیت میں یک رنگی اور خشیت الٰہی اور فکر آخرت کے دل پر ہمیشہ غالب رہنے کو ناممکن بلکہ محال قرار دیا اس تناظر میں حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کے قول کو حدیث قرار دینا صحیح نہیں ہے، لہٰذا اس کو اصل مان کر کسی شخص کو اپنے آپ کو کافر کہنا یا منافق قرار دینا درست نہیں ہے۔
آگے فرماتے ہیں:
کسی امر کے استحضار اور خیال کا قلب پر غالب اور قوی ہوجانا مشاہدہ کہلاتا ہے۔ اس حدیث میں اس کا اثبات ہے کہ حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ نے جنت دوزخ کی یاد کی نسبت یہ فرمایا کہ گویا کھلی آنکھوں دیکھنے لگتے ہیں آہ، مراد اس سے یہی غلبہ استحضار ہے اور مشاہدہ کے لغوی معنی مراد نہیں ہوتے بعضے ناواقفی سے غلطی میں پڑچاتے ہیں۔
زبان اصل میں اسی لیے بنی ہے کہ اس کے الفاظ سے وہی معنی مراد لیے جائیں جن کے لیے اہل زبان وہ الفاظ بولتے ہیں یا جن کے اظہار کے لیے انھوں نے وہ الفاظ وضع کیے ہیں رہے الفاظ کے مجازی معنی تو اگرچہ اہل زبان کے ہاں ان کا اعتبار ہے، مگر علی الاطلاق نہیں، ورنہ شریعت بازیچۂ اطفال بن جائے گی۔ مشاہدہ اصل میں حاسہ بصر کے ذریعہ دیکھنے ہی کے لیے وضع کیا گیا ہے اور حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کے نتیجے میں جنت اور دوزخ کی جس رؤیت کا ذکر کیا ہے اس پر ’’مشاہدہ‘‘ کا اطلاق اس لیے صحیح نہیں ہے کہ انھوں نے مجرد آنکھوں کی رؤیت کے بجائے گویا آنکھوں کی رؤیت کی تعبیر اختیار فرمائی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جنت اور دوزخ کو دیکھنے نہیں لگتے تھے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صدق بیانی سے جنت اور دوزخ کا جو تصور قائم ہوتا تھا وہ رؤیت عین یا بذریعہ آنکھ دیکھنے کے مانند ہوتا تھا جو فریب نظر سے پاک ہوتا تھا، مزید یہ کہ رؤیت جس طرح بذریعہ آنکھ دیکھنے کو کہتے ہیں، اسی طرح اس کا اطلاق رؤیت قلبی پر بھی ہوتا ہے جس کا دوسرا