کتاب: روشنی - صفحہ 227
تمہارے اوپر خشیت الٰہی کا غلبہ ہوگا اور کبھی اس کی کیفیت میں کمی آجائے گی، مگر یہ دوسری حالت نہ معیوب ہے اور نہ قابل گرفت۔
مولانا اشرف علی تھانوی نے اس آخری فقرے کا جو یہ ترجمہ کیا ہے:
لیکن اے حنظلہ! ایک ساعت کیسی ایک ساعت کیسی (شریعت اور طریقت ص ۶۸، مسائل تصوف احادیث کی روشنی میں ص ۶۴) یہ ترجمہ نہ زبان کے اعتبار سے صحیح ہے اور نہ حدیث کے سیاق و سباق کے مطابق۔
’’لیکن حنظلہ بات یہ ہے کہ گاہے گاہے، گاہے گاہے۔
یعنی آدمی کے ساتھ انسان ضرورتیں بھی لگی ہوئی ہیں جن کو پورا کرنا بھی ضروری ہے کھانا پینا، بیوی بچے اور ان کی خیر خبر لینا یہ بھی ضروری چیزیں ہیں، اس لیے اس قسم کے حالات کبھی کبھی حاصل ہوتے ہیں، نہ ہر وقت یہ حاصل ہوتے اور نہ اس کی امید رکھنا چاہیے۔[1]
اس حدیث سے مولانا تھانوی نے سلوک کے جو نکتے پیدا کیے ہیں، جہاں خود یہ حدیث ان کے خلاف ہے وہیں بعض باتیں بڑی دو رازکار ہیں، فرماتے ہیں:
بعض بزرگوں کے کلام میں اپنے کو کافر کہہ دینا یا نفس کو اس کی حقیقت بھی عین اس شخص کی ذات ہے (بعض صفات ذمیمہ کے اعتبار سے کافر کہہ دینا خواہ بعض اعمال سیئہ و احوال رویٔہ کے اعتبار سے یا کسی اصطلاح کے اعتبار سے ہو، پایا جاتا ہے، جس پر ظاہر نظر میں شبہ ہوتا ہے کہ جو شخص اپنے کو کافر کہے وہ مسلمان کب رہ سکتا ہے اس حدیث میں اس عادت کی اصل پائی جاتی ہے کہ حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ نے عدم دوامِ غلبہ حال کے اعتبار سے اپنے کو منافق کہہ دیا جو یقینا معنی حقیقی شرعی میں مستعمل نہیں، کیونکہ اس کے لوازم سے کفر بمعنی تکذیب اللہ و رسول کے ہیں، بلکہ محض اختلاف حالت غیبت و حضور میں تشبیہ کا لحاظ کرکے اصطلاح خاص پر نباء کرکے مجازاً کہہ دیا۔‘‘ [2]
[1] فضائل اعمال، ص ۵۵، ج۱.
[2] مسائل تصوف ص ۶۵.