کتاب: روشنی - صفحہ 226
اس تعبیر نبوی میں حرف ’’لو‘‘ استعمال ہوا ہے جس کو نحوی اصطلاح میں ’’حرف امتناع‘‘ کہتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اس حرف کی شرط کے ناممکن الوقوع ہونے کی وجہ سے اس کی جزا بھی ناممکن الوقوع ہوتی ہے اس وضاحت کی روشنی میں حدیث حنظلہ کے مذکورہ فقرے کا مطلب ہے: ’’چونکہ تمہارا اس ایمانی کیفیت اور اس خشیت الٰہی پر ہمیشہ برقرار رہنا جو میری مجلسوں میں اور ذکر میں تمھیں حاصل ہوتی ہے ناممکن ہے اس لیے فرشتوں کا تم سے علانیہ مصافحہ کرنا بھی ناممکن ہے۔ اسی طرح اس ارشاد نبوی سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آپ کے ارشادات کے نتیجے میں خوف الٰہی کا جو غلبہ طاری ہوجاتا تھا اور ذکر و فکر اور توجہ الی الآخرت سے ان کی ایمانی کیفیت میں جو سرد مہری پیدا ہوجاتی تھی یہ بالکل طبعی تھی، کیونکہ ان سے اور ان کے علاوہ دوسرے مسلمانوں سے نہ یہ مطلوب ہے اور نہ وہ اس کے مکلف ہیں کہ ان کے اوپر ہر وقت خوف الٰہی کا غلبہ رہے اور دنیا کی طرف یا بیوی بچوں کی طرف ان کے اندر کوئی میلان پیدا نہ ہو۔ اس بات کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث کے آخری فقرے میں واضح فرمایا ہے: ((ولکن، یا حنظلۃ؛ ساعۃ وساعۃ۔)) ’’لیکن اے حنظلہ! کبھی اور کبھی۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین بار فرمائی، یعنی ساعۃ وساعۃ، ساعۃ و ساعۃ، ساعۃ و ساعۃ، جس سے اختلاف احوال پر تاکید مقصود ہے۔ عربی میں اگر ایک ہی لفظ جو نکرہ ہو جیسے یہاں ہے حرف عطف ’’واؤ‘‘ کے ذریعہ مکررلایا جائے تو اس سے ’’مغایرت‘‘ کا مفہوم نکلتا ہے یعنی دو مختلف مفہوم دیتا ہے، اس طرح حدیث پاک کے آخری فقرے کا مطلب یہ ہوا کہ: کبھی تمہاری توجہ آخرت کی جانب ہو اور کبھی تم امور دنیا انجام دو، اس کے نتیجے میں کبھی