کتاب: روشنی - صفحہ 225
اور کھیتی باڑی کے کاموں میں مصروف ہوجانے کی صورت میں استحضار کی وہ کیفیت برقرار نہیں رہتی اس کو انھوں نے نفاق کی علامت قرار دے لیا اور اس اندیشے میں مبتلا ہوگئے کہ ان کے اندر نفاق کی بیماری پیدا ہوگئی ہے اور جب انھوں نے اپنی یہ کیفیت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بیان کی تو انھوں نے نہ صرف یہ کہ ان کی تائید کی، بلکہ یہاں تک اقرار کیا کہ اس طرح کی کیفیتوں سے تو ہم سب دوچار ہوتے ہیں۔ جہاں تک ایمانی کیفیتوں میں گرمی اور سردی اور شدت اور کمی کا مسئلہ ہے تو اس کے احساس اور اقرار میں دونوں بزرگ حق بجانب تھے، لیکن انھوں نے اس تبدیلی احوال کو منافقت پر جو محمول کرلیا تو اس کا سبب خوف الٰہی یا تقویٰ کی وہ شدت تھی جس سے صحابہ کرام موصوف تھے اور جو اللہ کے صحیح العقیدہ اور صالح بندوں کے دلوں میں ہمیشہ کسی نہ کسی درجے میں زندہ رہتی ہے اور اس کی روشنی میں ان کے درجات متعین ہوتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ سے ان کی سرگزشت سننے کے بعد اس کی تردید نہیں فرمائی اور یہ نہیں فرمایا کہ تمھارے اندر نفاق کی بیماری نہیں ہے، بلکہ ان سے پوچھا کہ تمھارے اس دعویٰ یا اقرار کا سبب کیا ہے: ’’وما ذاک؟‘‘ اور جب انھوں نے وہ سبب بیان کردیا جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو منافق سمجھنے لگے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر ان کی یہ غلط فہمی دور فرمادی کہ مومن کی ایمانی کیفیت ہمیشہ اپنے اعلیٰ مقام پر برقرار نہیں رہتی اور جو اس وقت ہوتی تھی جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلسوں میں ہوتے یا ذکر و اذکار کر رہے ہوتے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے جو تعبیر اختیار فرمائی وہ حد درجہ بلیغ اور حقیقت واقعہ کی ترجمان ہے آپ نے فرمایا: ((إن لو تدومون علی ما تکونون عندی وفی الذکر، لصافحتکم الملائکۃ علی فرشکم وفی طرقکم۔)) ’’میرے پاس اور ذکر کے موقع پر تمھاری جو ایمان کیفیت ہوتی ہے اگر تم اس پر برقرار رہو تو فرشتے تم سے تمھارے بستروں اور راستوں پر مصافحہ کرنے لگیں۔‘‘