کتاب: روشنی - صفحہ 222
’’غین‘‘ ایسی چیز ہے جو دل پر پردہ ڈال دے، لیکن اس کو پوری طرح نہ ڈھانکے جیسے وہ ہلکے اور رقیق بادل جو فضا میں ظاہر ہوتے ہیں اور سورج کی روشنی کو نہیں روکتے… لہٰذا اس غین سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کی غفلتوں اور آپ کے نفس کے سست پڑجانے، مسلسل ذکر کرتے رہنے سے بے خبر ہوجانے اور مشاہدۂ حق کے سلسلے کے منقطع ہوجانے کی طرف اشارہ ہے… …لیکن چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ساری مخلوق سے زیادہ بلند تھا اور بندوں میں آپ کو سب سے زیادہ اللہ کی معرفت حاصل تھی اور آپ کی صفائی قلبی، ارادے کی پاکی، اپنے رب کے ساتھ انفرادی تعلق خاطر، پورے وجود کے ساتھ اس کی طرف التفات و توجہ اور اس کے جناب میں اپنے مقام کی بلندی کی حالت آپ کی دونوں حالتوں حالت ذکر و فکر اور حالت سہو اور فتور میں زیادہ اعلیٰ اور ارفع تھی، اس لیے آپ ذکر پر دوام اور مسلسل مشاہدۂ حق سے توقف عارضی اور دوسرے امور میں انہماک کو اپنے مقام و مرتبہ کی بلندی سے فرد تر تصور کرتے اور اس پر اللہ سے استغفار کرتے۔‘‘ (ص ۱۱۳، ج ۲) معلوم ہوا کہ اشرف الخلق صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عصمت کاملہ اور اللہ تعالیٰ کی کامل عنایتوں کے باوجود اگر یاد الٰہی میں کبھی سست پڑجاتے اور آپ کے مبارک دل پر غفلت کا معمولی پردہ پڑجاتا، جو اگرچہ گناہ نہ تھا، بلکہ اس بشری جبلت کا تقاضا تھا جس پر آپ کی تخلیق ہوئی تھی، تو آپ اس کو قصور تصور کرکے اس کی تلافی کے لیے اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے۔ اب اگر یہ سیّد البشر اور افضل الانبیاء والرسل علیہم الصلوٰۃ والسلام کی حالت تھی تو پھر دوسرے مسلمانوں سے یہ کیونکر مطلوب ہوسکتا ہے کہ ان کی ایمانی حالت، تعلق باللہ کی حرارت، ذکر و یاد الٰہی اور فکر آخرت کی حالت میں کوئی کمی اور فتور پیدا نہ ہو اس تصور کو ذہن میں تازہ رکھئے اور حدیث حنظلہ پر غور کیجیے: ((حدثنا یحییٰ بن یحییٰ وقطن بن نسیر- واللفظ لیحییٰ۔ اخبرنا جعفر بن سلیمان عن سعید بن ایاس الجریری، عن