کتاب: روشنی - صفحہ 220
اس سے ان کے مبلغ علم اور حدیث سے ان کی محبت کا پتہ چلتا ہے، یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ متکلمین کے عقائد حق و باطل کا مجموعہ ہیں جن میں سانپ اور بچھو بھی ہیں، امام ابویوسف رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’جس نے طلب دین میں ’’کلام‘‘ کو ذریعہ بنایا وہ بددین اور زندیق ہے۔‘‘ امام شافعی فرماتے ہیں: ’’اہل کلام کوکھجورکی ٹہنیوں اور جوتوں سے مارو اور قبیلوں اور برادریوں میں ان کو گھماؤ یہ اس شخص کی سزا ہے جس نے کتاب و سنت کو پس پشت ڈال دیا اور کلام کی طرف متوجہ ہوا۔‘‘[1] حدیث حنظلہ اور صحبت شیخ ایک سچے اور صحیح العقیدۃ مومن کے دل میں ایمان باللہ اور ایمان بالآخرۃ کتنا ہی راسخ اور گہرائیوں نہ ہو، پھر بھی اس کی حالت یکساں نہیں رہتی، اگر تلاوت قرآن، ذکر و فکر اور جنت و دوزخ کی یاد سے اس دنیا کی ناثباتی اور مادی سامان متاع کی بے وقعتی اس کے احساس و جذبات پر غالب آجایا کرتی ہے اور اس کا دل اس دنیا اور اس کی دل فریبیوں سے اچاٹ ہوجایا کرتا ہے تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ کاروبار حیات کی مصروفیتوں اور بیوی اور بچوں کے درمیان رہنے اور ان کے امور میں الجھ کر بسا اوقات اس کا دل یاد الٰہی سے قدرے غافل ہوجاتا ہے اور فکر آخرت کا جذبہ کسی حد تک سرد ہوجاتا ہے۔ یہ دونوں حالتیں اگرچہ طبعی اور قدرتی ہیں، مگر بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ایک سچا اور صادق الایمان بندہ اس دوسری حالت پر گھبرا سا جاتا ہے اور ایسا محسوس کرنے لگتا ہے کہ شاید اس کے دل میں نفاق کا ’’روگ‘‘ پیدا ہونے لگا ہے اور اس کا ایمان مطلوبہ حالت پر برقرار نہیں ہے، جبکہ حقیقت حال اور امر واقعہ یہ ہے کہ مومن کا یہ احساس اس کے ایمان کی متانت اور گہرائی کی دلیل ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انبیاء علیہم السلام کے بعد اولاد آدم میں سب سے زیادہ مقدس، صالح اور پاکباز لوگ گزرے ہیں ان کی تربیت نبی آخر الزمان محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی اس مقدس گردہ کا ہر فرد اپنا احتساب کرکے اپنی ایمانی حالت کو جانچتا رہتا تھا اور جس
[1] شرح العقیدۃ الطحاویہ، ص ۲۱۰.