کتاب: روشنی - صفحہ 22
نے بعض باتوں کی درست تعبیر بتائی اور بعض کی تعبیر بتانے میں غلطی کر دی۔‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کی قسم، اے اللہ کے رسول! مجھے وہ تعبیر بتایئے جس میں مجھ سے غلطی ہوئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قسم مت کھاؤ۔‘‘ [1] حدیث کے شارحین نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تعبیر میں غلطی سے متعلق جو کچھ فرمایا ہے وہ کتابی باتیں ہیں جن کا ذکر قارئین کے لیے کچھ زیادہ مفید نہیں ہے ، البتہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے جو فرمایا ہے وہی درست اور خواب کے الفاظ سے مناسب معلوم ہوتا ہے؛ امام طحاوی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے اس خواب کی تعبیر میں جو غلطی ہو گئی وہ یہ تھی کہ انہوں نے شہد اور گھی کی ایک ہی تعبیر بتا دی، جب کہ مناسب حال جو بات تھی وہ یہ کہ ان کی تفسیر قرآن اور سنت سے کرتے۔ حافظ خطیب بغدادی نے تعبیر رؤیا کا علم رکھنے والے دوسرے علماء کا بھی یہی قول قرار دیاہے۔ [2] اس حدیث سے جو درس ملتا ہے کہ وہ یہ کہ کسی بڑے سے بڑے عالم کی کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہے ، اور اگر اس اُمت کے افضل ترین فرد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ایک خواب کی تعبیر میں غلطی کر سکتے تھے تو دوسروں سے غلطیوں کا صدور اقرب و اوّل ہے، عصمت صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے جو یہ فرمایا: ’’قسم مت کھاؤ‘‘تو یہ دراصل اس بات کی تاکید کے لیے تھا کہ میں تم کو یہ نہیں بتاؤں گا کہ تم نے مذکورہ خواب کی تعبیر میں کہاں کہاں غلطی کی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا اس لیے فرمایا تھا کہ ان کی غلطیوں کی نشان دہی کرنے کی صورت میں آپ کو خواب کی صحیح اور حقیقتِ حال کے مطابق تعبیر بتانی پڑتی، خاص طور پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آسمان و زمین کے درمیان پھیلی ہوئی رسّی کو وہ حق قرار دیا تھا جس پر
[1] بخاری: ۷۰۴۶۔ مسلم: ۲۲۶۹. [2] فتح الباری، ص: ۳۱۲۵، ج: ۳.