کتاب: روشنی - صفحہ 219
یہاں تک لکھ دیا ہے:
’’علامہ مولانا ادریس کاندھلوی کی شرح مشکوٰۃ کی مانند کوئی شرح روئے زمین پر موجود نہیں ہے۔‘‘ [1]
یہی محدث انسان کامل کے عقائد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’آدمی جب کامل ہوتا ہے جب اس میں تین صفتیں موجود ہوں، اس کا علم فقہاء جیسا ہو، عبادت اولیاء جیسی ہو اور اس کے اعتقادات متکلمین جیسے ہوں۔‘‘
(ص۲۸۶)
اس مختصر عبارت پر تبصرہ کرنے سے قبل یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ کوئی انسان ’’کامل‘‘ نہیں ہوتا اور نہ ہوسکتا ہے، اس لیے کہ ’’کمال‘‘ اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے اور وہ جن صفات سے موصوف ہے وہ سب درجہ کمال پر ہیں اور نقص سے پاک ہیں۔
فقہاء سے اگر شیخ کاندھلوی کی مراد اصطلاحی فقہاء ہیں تو وہ علم کے ایسے درجے پر فائز نہیں تھے کہ ان کے علم کی تمنا کی جائے، البتہ اگر فقہاء سے مراد ایسے لوگ ہیں جو فقہ اور تفقہ یعنی سوجھ بوجھ اور مسائل کی تہہ تک پہنچ جانے اور حقیقت کا سراغ لگالینے کی صفت سے موصوف ہوں تو بلاشبہ یہ ایک ممدوح اور قابل تمنا صفت ہے۔
اولیاء سے شیخ کاندھلوی کی مراد ’’صوفیاء‘‘ ہیں ، کیونکہ ارباب تصوف کے نزدیک غیر صوفی ولایت پر فائز نہیں ہوسکتا، لہٰذا صوفیا کی عبادت حق و باطل، منصوص و من گھڑت اور مقبول و مردود اعمال کا مجموعہ ہے ایسی صورت میں کون مسلمان جانتے بوجھتے صوفیا جیسی عبادت کا متمنی ہوگا، یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام مومن بندے اولیاء ہیں (یونس:۶۲) البتہ درجات کے اعتبار سے اللہ کے جو محبوب بندے ہیں اور اہل ایمان سورۃ الفاتحہ میں جن کے راستے پر چلنے کی ہدایت اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہیں ان کی فہرست میں ’’اولیاء‘‘ نہیں ہیں۔ (النساء:۶۹)
شیخ کاندھلوی نے متکلمین جیسے اعتقادات رکھنے والے کو انسان کامل سے تعبیر کیا ہے
[1] اکابر علماء دیوبند ص ۲۱۹.