کتاب: روشنی - صفحہ 218
آخری نبی کے اصحاب کی جو صفات بیان فرمائی تھیں ان سے مذکورہ صوفی رائپوری کے دعوے کی جڑ کاٹ جاتی ہے، ارشاد ربانی ہے:
﴿ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴾
’’پس جو لوگ اس پر ایمان لائے، اس کی حمایت اور نصرت کی اور اس روشنی کی پیروی اختیار کی جو اس کے ساتھ نازل کی گئی وہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
(الاعراف: ۱۵۷)
اس آیت مبارکہ کا یہ فقرہ بڑا معنی خیز ہے، کیونکہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کی پیدائش سے صدیوں قبل ان کا ذکر فعل ماضی سے کیا گیا ہے اور جب مستقبل میں رونما ہونے والے کسی واقعہ کا ذکر فعل ماضی سے کیا جاتا ہے تواس کے یقینی ہونے پر زور دینا مقصود ہوتا ہے۔
صوفی رائے پوری تو عالم دین نہیں تھے، لیکن ان سے گفتگو کرنے والے، بلکہ ان کے من گھڑت اوراد و اذکار اور ریاضتوں کے بارے میں استفسار کرنے والے مولانا محمد منظور نعمانی تو عالم دین تھے، آخر انھوں نے کس مصلحت سے ان کی ہاں میں ہاں ملائی؟
میں نے اپنے کسی مضمون میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ صوفیا کے عقائد صحیح نہیں تھے، اپنے اس دعوے پر ’’استدراک‘‘ کرتے ہوئے اس مضمون کا اختتام اس انکشاف سے کرنا چاہتا ہوں کہ درحقیقت صوفیا صحیح عقائد سے واقف ہی نہیں تھے اور چونکہ وہ کتاب و سنت کا مطالعہ اس لیے نہیں کرتے تھے کہ وہ اسلام کے ان دونوں ماخذوں سے ہدایت حاصل کریں، بلکہ وہ اپنے غلط افکار کے لیے دلائل تلاش کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کرتے تھے، لہٰذا ان کو وہی کچھ ملتا تھا جس کے وہ جو یا تھے، ہیں اور رہیں گے۔
شیخ محمد ادریس کاندھلوی تصوف اور تبلیغ کی ایک بہت بڑی شخصیت کا نام ہے ان کے القاب دو سطروں میں آتے ہیں، تفسیر، حدیث، فقہ اور دعوت و تبلیغ میں ان کو امام مانا جاتا ہے، علامہ انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ نے تو ان کی ’’شرح مشکوٰۃ المصابیح، تعلیق الصبیح‘‘ کی تعریف میں