کتاب: روشنی - صفحہ 217
ضروری قرار دیا ہو، لیکن کسی وقت زمانہ کے حالات بدل جانے سے وہ اس طریقے سے حاصل نہ کی جاسکتی ہو جس طریقے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں حاصل ہوجایا کرتی تھی، بلکہ اس کے واسطہ کوئی اور طریقہ استعمال کرنے کی ضرورت پڑجائے تو کیا اس نئے طریقے کے استعمال کو بھی آپ دین میں اضافہ اور بدعت کہیں گے؟…[1] بالکل کہیں گے اور ببانگ دہل کہیں گے اور جو شخص یہ کہے گا کہ اللہ و رسول نے جس چیز کو حاصل کرنا ضروری قرار دیا تھا اور اس کے حصول کا طریقہ بتایا تھا، زمانہ سے اور حالات کے بدل جانے کی وجہ سے وہ طریقہ کار آمد نہیں رہا، نئے طریقے کی ضرورت ہے؟ ایسا کہنے والے کے منہ میں خاک ڈال دیں گے اور اس کو جھوٹا اور دین سے خارج قرار دے دیں گے، کیونکہ ایسی بات زبان سے نکالنے والا ’’تکمیل دین‘‘ کے اعلان الٰہی کا انکار کر رہا ہے۔ (المائدہ:۳) مزید مغالطہ ملاحظہ فرمائیے: ’’…دین سیکھنا ضروری ہے اور دین میں اس کا تاکیدی حکم ہے اور آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے زمانے میں اس کے لیے صرف صحبت کافی ہوجاتی تھی۔‘‘ (ص ۱۳) بالکل جھوٹا اور سو فیصد جھوٹا دعویٰ ہے صحابہ کرام کو جو شرف صحابیت حاصل تھی وہ ان کی اپنی تمام تر عظمتوں کے باوجود اتباع رسول اور سنت مطہرہ سے ان کو بے نیاز نہیں بنا سکتی تھی، بلکہ ایمان اور اتباع رسول کے بغیر صحبت کا کوئی اعتبار نہیں تھا جس کی دلیل یہ ہے کہ یہ صحبت بہت سے منافقین کو بھی حاصل تھی وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد نبوی میں نمازیں بھی پڑھتے تھے آپ کی مجلسوں میں شرکت بھی کرتے تھے اور صبح و شام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخ انور کو دیکھتے بھی تھے، مگر ان کو شرف صحابیت حاصل نہ ہوسکا۔ سورۃ الاعراف میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰJ کی دعا کے بعد بنواسرائیل کو سلسلۂ انبیاء و رسل کی آخری کڑی رسول و نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا جو حکم دیا تھا اس کے آخر میں اپنے
[1] تصوف کیا ہے؟ ص ۱۲.