کتاب: روشنی - صفحہ 216
معمولی سی بات معلوم رہتی کہ ماں کی خدمت اور اللہ تعالیٰ کے حق کی ادائیگی میں کوئی مغایرت نہیں ہے، بلکہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، پھر اگر ماں نے ان کو ان کی مرضی پر اپنی خدمت سے بری کر بھی دیا تو وہ بری کہاں ہوئے، ماں تو بچے کی خوشی کے لیے اپنی زندگی سے بھی دست بردار ہوسکتی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح وہ ماں کی خدمت سے بری ہو بھی گئے؟ ہرگز نہیں، کیونکہ والدین خصوصاً ماں کے حقوق اللہ کے عطا کردہ ہیں جن سے دست بردار ہونے کا حق ماں کو حاصل نہیں ہے۔ اب میں پوری جرأت سے یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور سنت مطہرہ کا تعلق ہے تو مسلمانوں میں جو طبقہ یا جماعت اسلام سے سب سے دور ہے وہ صوفیا کی جماعت ہے صرف یہی نہیں بلکہ صوفیا کا یہ عقیدہ اور دعویٰ دونوں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو امت میں جو نمایاں مقام و مرتبہ حاصل تھا وہ صرف ان کے شرف صحابیت کی وجہ سے ان کو حاصل تھا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات، آپ کی سنت اور آپ کی سیرت کو اسوۂ حسنہ بنانے کی وجہ سے حاصل نہیں تھا، اسی وجہ سے احادیث میں جو اجتماعی قواعد و ضوابط بیان ہوئے ہیں، خلق خدا کے ساتھ حسن سلوک کی جو ہدایات دی گئی ہیں، معاشرتی زندگی کے جن تقاضوں پر زور دیا گیا ہے اور حلال طریقوں سے روزی کمانے کی جو ترغیبات دی گئی ہیں وہ صوفیا کے نزدیک دو کوڑی کے برابر بھی نہیں ہیں، کیونکہ جس قوم کے نزدیک اللہ سے تعلق جوڑنے کے لیے ’’خلق‘‘ سے تعلق توڑنا ضروری ہو اس کی دنیا میں اجتماعیت کا گزر کہاں۔ زہد و توکل، ذکر و اذکار، تزکیۂ نفس اور تطہیر باطن اور بدنی اور روحانی ریاضتوں کی شکل میں جن اعمال کو صوفیا نے ضروری خیال کر رکھا ہے اور جن سے ان کے مزعومہ فوائد حاصل ہورہے ہوں گے ان کا سیرت طیبہ اور سنت مطہرہ سے کیا تعلق۔ ایک مشہور خانقاہی بزرگ اور صوفی کی جرأت اور بے خوفی ملاحظہ ہو: …اگر دین میں کوئی چیز مقصود اور مامور بہ ہو اور اللہ و رسول نے اس کا حاصل کرنا