کتاب: روشنی - صفحہ 215
والے لوگ شامل ہیں، مسلمانوں میں جتنی جماعتیں اور فرقے پیدا ہوئے ان میں اہل تصوف کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ یہ دوسرے مسلمانوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ اللہ اور رسول کی محبت کا دم بھرتے ہیں، لیکن ان کی عملی زندگی کا مطالعہ اور اکابر صوفیا کی سیرتوں پر سنجیدہ غور و تدبر سے جو ناقابل تردید حقیقت سامنے آتی ہے وہ یہ کہ صوفیا کے نزدیک قرآن صرف کتاب تلاوت ہے، کتاب ہدایت نہیں رہی حدیث تو جو قولی احادیث ہیں تو ان کا مطالعہ اور ان پر غور و خوض راہ سلوک میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، چنانچہ بہت بڑے صوفی بلکہ صوفیا کے امام ابوسلمان عبد الرحمن بن عطیہ دارانی کا قول ہے کہ ’’جس نے تین چیزیں کیں وہ دنیا کی طرف مائل ہوگیا: جس نے معاش کے لیے کاوش کی، عورت سے شادی کی، اور حدیث کی کتابت کی۔[1] اس غیر ذمہ دارانہ بلکہ غیر اسلامی قول کی روشنی میں تمام صحابہ کرام، بلکہ نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا دار تھے اور دیندار صرف صوفیا ہیں۔ قرآن و حدیث میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی جو تاکید آتی ہے اس کے بیان کی ضرورت نہیں، اس تناظر میں تصوف کی دنیا کی ممتاز شخصیت ابویزید بسطامی کے درج ذیل واقعہ پر غور کیجیے: ابویزید بسطامی جب قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے سورہ لقمان کی اس آیت پر پہنچے جس میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنا اور والدین کا شکر ادا کرنے کے لیے کہا ہے (آیت ۱۴) تو سوچ میں پڑگئے، والد کا انتقال ہوچکا تھا، والدہ کے پاس جاکر کہا: میں خدا کا حق اور آپ کا حق دونوں ایک ساتھ ادا نہیں کرسکتا یا تو آپ خدا سے دعا کریں کہ مجھے آپ کی خدمت کے لیے فارغ کردے یا آپ مجھے خدا کے لیے فارغ کردیں تاکہ سارا وقت آپ کے ساتھ گزاروں والدہ نے ان کو اپنی خدمت سے بری کرکے خدا کے لیے فارغ کردیا۔[2] ابویزید بسطامی نے اگر کبھی قرآن و سنت کو کتاب ہدایت سمجھ کر پڑھا ہوتا تو ان کو یہ
[1] حلیۃ الاولیاء ص ۳۵۹، ج ۲، بحوالہ تصوف اور شریعت ص ۱۶. [2] تذکرۃ الاولیاء ص ۱۳، ج ۱، بحوالہ تصوف اور شریعت ص ۱۷.