کتاب: روشنی - صفحہ 213
اور استدلال صرف قرآن سے کروں گا تاکہ اہل قرآن پر بھی حجت قائم رہے۔ سورۃ النساء میں ارشاد الٰہی ہے: ﴿ وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ ﴾ (النساء:۱۱۳) ’’اور اللہ نے تمھارے اوپر کتاب اور حکمت نازل کی اور تمھیں وہ کچھ سکھایا جسے تم نہیں جانتے تھے۔‘‘ اور سورۃ الاحزاب میں اللہ تعالیٰ امہات المومنین کو مخاطب کرکے ان کو حکم دیتا ہے: ﴿ وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ ﴾ (الاحزاب:۳۴) ’’(اے نبی کی بیویو!) یاد رکھو اللہ کی آیات اور حکمت کی اُن باتوں کو جو تمھارے گھروں میں تلاوت کی جاتی ہیں۔‘‘ مذکورہ تینوں آیتوں میں کتاب کے ساتھ بصورت عطف جس طرح حکمت کا ذکر آیا ہے اس سے حدیث کے سوا کچھ اور مراد نہیں ہوسکتا، چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’الرسالہ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’ان آیات میں حکمت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی ہے، کیونکہ ان میں قرآن کے ذکر کے بعد ’’الحکمۃ‘‘ کا ذکر آیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو کتاب و حکمت کی تعلیم دینے کو ’’احسان‘‘ کے طور پر ذکر فرمایا ہے، لہٰذا یہ جائز نہیں کہ ان میں حکمت سے سنت رسول کے سوا کچھ اور مراد ہو۔ (ص:۸۷۔۸۸) حافظ ابن القیم رحمہ اللہ ’’مدارج السالکین‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ’’الحکمۃ‘‘ کا استعمال دو طرح سے ہوا ہے؛ تنہا اور الکتاب کے ساتھ، جہاں یہ لفظ تنہا آیا ہے وہاں اس کی تعبیر نبوت اور علم قرآن سے کی گئی ہے…