کتاب: روشنی - صفحہ 212
حاصل ہوتی ہے جو محمود بہرحال نہیں ہے۔ صوفیائے کرام اور حدیث وادیٔ غیر ذی زرع میں اللہ کے پہلے گھر اور مرکز توحید، کعبہ کی تعمیر مکمل کرنے کے بعد اللہ کے محبوب ترین بندوں، ابراہیم و اسماعیل علیہما الصلاۃ والسلام نے ایک ساتھ مل کر اللہ تعالیٰ سے جو دعا مانگی تھی وہ یہ تھی: ﴿ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴾ (البقرہ:۱۲۹) ’’اے ہمارے رب! تو ان لوگوں میں انھی میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو انھیں تیری آیات سنائے، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کو پاک کرے درحقیقت تو بڑا باعزت اور حکمت والا ہے۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین فرائض منصبی بیان کیے گئے ہیں: (۱)… تلاوت و تبلیغ کتاب (۲)… کتاب اور اس کے ساتھ حکمت کی تعلیم و تشریح (۳)… لوگوں کا تزکیہ تلاوت اور تبلیغ کتاب کا مفہوم تو واضح ہے، رہی تعلیم تو اللہ تعالیٰ نے کتاب کے ساتھ ایک اور چیز کا اضافہ فرمایا ہے، جو حکمت ہے اور حکمت سے مراد لامحالہ حدیث ہے اور اس فقرے کا مطلب ہے کہ تلاوت و تبلیغ پر رسول کی ذمہ داری ختم نہیں ہوجاتی، بلکہ اس کے بعد اس کا دوسرا فرض منصبی وحی جلی کتاب اور وحی خفی حدیث کی تعلیم و تشریح اور ان کے ذریعہ دیے گئے احکام کی تبیین ہے۔ میں نے یہاں حکمت سے جو حدیث مراد لی ہے اس سے ’’بعض‘‘ لوگوں کو بڑا طیش آئے گا، اس لیے اپنے موضوع کے اندر رہتے ہوئے اس بات کو مختصراً واضح کردینا چاہتا ہوں