کتاب: روشنی - صفحہ 211
ضرورت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے اپنے حسب حال اسم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرسکتا ہے، اس سے کچھ مانگ سکتا ہے اور اس سے التجا کرسکتا ہے، مگر وہ کسی بھی مسلمان کو اس بات کا پابند بنانے کا مجاز ہرگز نہیں ہے کہ وہ بھی اسی کی طرح اور اسی کے وضع کردہ الفاظ میں دعا کرے۔ مذکورہ بالا وضاحت کی روشنی میں صوفیا کے اذکار و اشغال بموجب فرمان نبوی: ((من أحدث فی أمرنا ہٰذا ما لیس منہ فہو رد۔)) مردود ہیں، ان کا ورد باطل ہے اور وہ موجب اجر و ثواب ہونے کے بجائے موجب عقاب ہیں اور اپنی نکارت و شناعت میں اُن کا درجہ احکام الٰہی کی صریح نافرمانی سے بڑھا ہوا ہے، کیونکہ ایک معصیت کار مسلمان کو اپنے جرم کا احساس و اعتراف ہوتا ہے اور وہ معاصی کا ارتکاب کار ثواب سمجھ کر نہیں کرتا، جبکہ دین میں اپنی طرف سے اضافے کرنے والا اور بدعات ایجاد کرنے والا، یہ کام عین دین کا کام سمجھ کر کرتا ہے اور زبان قال سے نہ سہی زبان حال سے یہ اعلان کرتا ہے کہ اللہ و رسول کے دوش بدوش وہ بھی شریعت سازی کا حق رکھتا ہے، جبکہ اس کا دعوائے ایمانی اس سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ صرف اللہ و رسول کے احکام کا متبع اور پیرو، اس طرح قرآن کی زبان میں اس کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو اللہ و رسول کا مقابلہ کرتے ہیں۔ (النساء:۱۱۵، الانفال:۱۳) مذکورہ وضاحتوں کے بعد اُن احوال و کیفیات پر تبصرے کی چنداں ضرورت نہیں رہ جاتی جو بقول مصنف موصوف کے صوفیا کے اذکار و اشغال کے مخصوص طریقے سے اور مقررہ تعداد میں پڑھنے سے ظہور پذیر ہوتی ہیں، البتہ یہ اعتراف کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے کہ اس طرح کے احوال و کیفیات کا ظہور ممکن ہے۔ مگر چونکہ یہ اذکار و اشغال خود ساختہ اور من گھڑت ہیں اس لیے ان احوال و کیفیات پر ایمانی یا روحانی کا اطلاق درست نہیں زیادہ سے زیادہ جو بات کہی جاسکتی ہے وہ یہ کہ ان اذکار و اشغال کا ورد کرنے والے کی وہی حالت اور کیفیت ہوتی ہوگی جو عیسائی راہبوں، ہندو سادھؤوں اور بدہ بھکشوؤں کو اپنی ریاضتوں سے