کتاب: روشنی - صفحہ 210
سے مقررہ تعداد میں پڑھا جائے اور اس مخصوص طریقے میں چونکہ احوال و کیفیات کا ظہور بھی ہوتا ہے، لہٰذا اس کورس کی کامیابی کے لیے مستقل نگرانی کی ضرورت پڑتی ہے جو صرف شیخ طریقت ہی کرسکتا ہے۔‘‘
یہ عبارت ببانگ دہل یہ اعلان کر رہی ہے کہ قرآن و حدیث میں مذکور اذکار و ادعیہ کے علاوہ بھی اذکار و اشغال ہیں جن کا دین میں اعتبار ہے، یہ ایک ایسی بات ہے جس کو دین کا معمولی فہم رکھنے والا بھی اپنی زبان سے نہیں نکال سکتا، کیونکہ یہ عبارت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ اس امت میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو شریعت سازی اور عبادت سازی میں اللہ و رسول کے ساتھ شریک ہیں اور یہ کہنا تحصیل حاصل اور موجب تکرار ہے کہ اذکار و اشغال عین عبادت ہیں اور عبادت دین کا ایسا شعبہ ہے جس کا علم ہمیں صرف شارعJ کے ذریعہ ہوا ہے، یعنی اگر وحی متلو یا وحی غیر متلو نہ ہوتی تو ہمیں عبادات کا پتہ نہ چلتا اور یہ بات معلوم و مسلم ہے کہ دونوں قسم کی یہ وحی صرف محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتی تھی اور آپ کی وفات کے بعد اس وحی کے نزول کا سلسلہ قیامت تک کے لیے منقطع ہوچکا ہے، پھر یہ صوفیا کون سے لوگ ہیں جو مسنون و ماثور اذکار کے علاوہ کچھ اور مخصوص اذکار بتاتے ہیں، کیا ان پر بھی وحی نازل ہوتی ہے؟
یہاں پہنچ کر یہ واضح کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس امت کے معتبر اور صراط مستقیم پر گامزن تمام علماء کا اس امر پر اتفاق ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی بھی فرد بشر کو وہ کوئی بھی ہو اور صلاح و تقویٰ اور علم و معرفت کے کسی بلند سے بلند تر مقام پر فائز ہو معمولی سا بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ذکر و دعا کا کوئی صیغہ خود وضع کرے اور لوگوں کو اس کا ورد کرنے کا پابند بنائے، بلکہ قرآن و حدیث میں اذکار و اوراد کے جو صیغے منقول ہیں اگر وہ عام ہیں اور ان کی کوئی تعداد نہیں بتائی گئی ہے تو کوئی بھی شخص اس بات کا مجاز نہیں ہے کہ ان کے لیے خاص اوقات اور خاص تعداد متعین کرے۔
سورۃ الاعراف کی آیت نمبر ۱۸۰ کے بموجب کوئی بھی مسلمان اپنی مخصوص حالت و