کتاب: روشنی - صفحہ 209
’’اُن اذکار میں جو صوفیہ کے یہاں معمول و مروج ہیں اور عام اذکار و اوراد میں ایک لطیف فرق ہے؛ تلاوت قرآن پاک، اذکار و ادعیہ مسنونہ و ماثورہ، استغفار، درود شریف وغیرہ ہر مسلمان بغیر کسی پیر کی رہنمائی کے کرسکتا ہے، احادیث شریف میں جو اذکار و اوراد مذکور ہیں وہ عمومی ہیں اور ان کا نفع عام ہے، اسی طرح قرآن پاک کی دعائیں بھی کسی خاص ترتیب کے پڑھی جاسکتی ہیں اور قبول ہوتی ہیں، لیکن صوفیہ کے اذکار و اشغال کا فائدہ جب ہی ہوتا ہے جب اسے مخصوص طریقے سے مقررہ تعداد میں پڑھا جائے اور اس مخصوص طریقے میں چونکہ احوال و کیفیات کا ظہور بھی ہوتا ہے، لہٰذا اس کورس کی کامیابی کے لیے مستقل نگرانی کی ضرورت پڑتی ہے جو صرف شیخ طریقت ہی کرسکتا ہے۔‘‘
مذکورہ بالا عبارت اپنے مدعا کے بیان میں بالکل واضح ہے اور ان کی یہ بات بھی درست ہے کہ ’’تلاوت قرآن پاک، اذکار و ادعیہ مسنونہ و ماثورہ، استغفار، درود شریف وغیرہ ہر مسلمان بغیر کسی پیر کی رہنمائی کے کرسکتا ہے، احادیث شریف میں جو اذکار و اوراد مذکور ہیں وہ عمومی ہیں اور ان کا نفع عام ہے، اسی طرح قرآن پاک کی دعائیں بھی کسی خاص ترتیب کے پڑھی جاسکتی ہیں۔‘‘
مذکورہ عبارت میں غیر ضروری تکرار کو نکال کر اور اس میں معمولی سا وضاحتی اضافہ کرکے اگر یوں کہا جائے کہ ’’قرآن و حدیث کے اذکار ادعیہ، درود و استغفار اور تلاوت قرآن پاک کی تلاوت تمام مسلمانوں کے لیے عام ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے علاوہ کسی اور کی ہدایت و رہنمائی کے بغیر ان پر عمل کیا جاسکتا ہے، بلکہ کیا جانا چاہیے‘‘ تو عبارت زیادہ قرین حق ہوجائے گی۔
لیکن مصنف کی عبارت کا جو ٹکڑا ’’زہر قاتل‘‘ ہے وہ ’’لیکن‘‘ کے بعد شروع ہوتا ہے فرماتے ہیں:
’’صوفیہ کے اذکار و اشغال کا فائدہ جب ہی ہوتا ہے جب اسے مخصوص طریقے