کتاب: روشنی - صفحہ 208
’’تذکرہ حاجی امداد اللہ‘‘ کے مصنف بھی ہیں جن کی کتاب سے ایک عبارت نقل کرکے سائل نے اپنے سوال میں پیش کیا ہے۔ موصوف کی جسارت ملاحظہ ہو:
تلاوت قرآن پاک، اذکار و ادعیہ مسنونہ و ماثورہ، استغفار، درود شریف ہر مسلمان بغیر کسی پیر کی رہنمائی کے کرسکتا ہے، احادیث شریف میں جو اذکار و اوراد مذکور ہیں وہ عمومی ہیں اور ان کا نفع عام ہے، اسی طرح قرآن پاک کی دعائیں بھی بغیر کسی خاص ترتیب کے پڑھی جاسکتی ہیں اور قبول ہوتی ہیں، لیکن صوفیہ کے اذکار و اشغال کا فائدہ جب ہی ہوتا ہے جب اسے مخصوص طریقے سے مقررہ تعداد میں پڑھا جائے۔ (۱۰۱۔ ۱۰۲)
موصوف نے یہ بات فرقۂ چشتیہ کی وضع کردہ ۱۲ تسبیحوں کا طریقہ بیان کرنے کے بعد فرمائی ہے اور اس کو حاجی امداد اللہ صاحب کی طرف منسوب کیا ہے ۱۲ تسبیحوں کا یہ طریقہ چونکہ من گھڑت اور صوفیا کا وضع کردہ ہے اس لیے مردود و باطل ہے اگرچہ اس میں کلمۂ توحید بھی شامل ہے۔ اس ذکر میں جو طریقہ بیان کیا گیا ہے، ان میں ذکر کے جو کلمات بیان کیے گئے اگرچہ ان میں سے بعض کلمات مسنون اذکار میں بھی آئے ہیں، مگر چونکہ ان کی ترتیب، ان کے ورد کی تعداد اور ان کا مقصد ہر چیز خود ساختہ اور خانہ ساز ہے لہٰذا باطل ہے اور اس میں راہ سلوک کے مبتدی کو جو یہ تلقین کی گئی ہے کہ وہ ’’ لا إلٰہ‘‘ میں لامعبود، لامقصود اور لاموجود ملاحظہ کرے۔ ان میں ’’لا معبود‘‘ کے سوا لامقصود اور لاموجود صوفیانہ عقائد کے ترجمان ہونے کی وجہ سے مردود ہیں، کیونکہ یہ وحدۃ الوجود کے نظریہ کے داعی ہیں اور وحدۃ الوجود غیر اسلامی نظریہ ہے جس کا نعرہ سب سے پہلے ابن عربی نے لگایا اور حاجی امداد اللہ کا شمار اس ملحدانہ اور مشرکانہ نظریہ کے سربر آوردہ داعیوں میں ہوتا ہے۔
۱۲ تسبیحوں کی نکارت بیان کردینے کے بعد آئیے کتاب مذکور کے مصنف کے اُس دعوے کا جائزہ لیں جس کا اظہار انھوں نے اذکار و اوراد کے بیان کے ضمن میں کیا ہے میں ان کی عبارت کا متعلقہ ٹکڑا دوبارہ نقل کردیتا ہوں تاکہ میرے تبصرے کو سمجھنے کے لیے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی زحمت نہ کرنی پڑے، رقمطراز ہیں: