کتاب: روشنی - صفحہ 207
مقصورہ سترہ سے بھی جمع خاطر اور ربط خیال و نفی انتشار ہے جیسا کہ ابن ہمام نے شرح ہدایہ میں لکھا ہے اور سترہ اس کی تدبیر ہے۔ مذکورہ حدیث اپنے ضعیف اور ناقابل استدلال ہونے کے باوجود اس بات پر بصراحت دلالت نہیں کرتی کہ سترہ کی مشروعیت کی وجہ ’’جمع خاطر اور ربط خیال و نفی انتشار‘‘ ہے، پھر کب سے علماء اسرار کی تصریحات اور ابن ہمام جیسے فقہاء کے اقوال اساس دین میں شمار ہونے لگے کہ ان کی بنیاد پر اذکار و اشغال تجویز کیے جانے لگیں، اذکار و اشغال عین عبادت ہیں اور کسی بھی عبادت کے مشروع ہونے اور قابل عمل ہونے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے اس کو مشروع قرار دیا ہو، اور اگر بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سترہ نصب کرنے کا حکم جمع خاطر اور توجہ میں یکسوئی حاصل کرنے کی غرض سے دیا ہے تو اس سے ارباب تصوف کے تجویز کردہ اشغال کا جواز کہاں سے نکلتا ہے؟ کیا عبادات بھی قیاسی اور اجتہادی ہیں کہ کسی ایک عبادت کے ثابت ہونے کی صورت میں اس کی حکمت اور اس کی علت سے کوئی دوسری عبادت وضع کرلی جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ساتھ ہی شریعت سازی کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا اور کسی بھی فرد بشر کے لیے یہ جائز نہیں رہا کہ وہ تقرب الی اللہ، یا توجہ الی اللہ میں یکسوئی حاصل کرنے یا ذہن و دماغ کو افکار و خیالات سے پاک کرنے یا جمعیت خاطر کے لیے کوئی عمل یا شغل تجویز کرے، ایسا کرنے والا زبان حال سے یہ اعلان کر رہا ہے کہ جو دین و شریعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑ کر گئے ہیں وہ نعوذ باللہ ناقص ہے اور امت میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو مختلف ناموں سے اس دین میں اضافہ کرنے کے مجاز ہیں اور عبادات کی حکمتوں اور علتوں کو سامنے رکھ کر تقرب الی اللہ اور تزکیہ نفس کی غرض سے نئے نئے اذکار و اشغال تجویز کرسکتے ہیں حتیٰ کہ اس مقصد کے لیے وہ جوگیوں اور دوسرے غیر مسلموں سے بھی اعمال لے سکتے ہیں۔ مولانا تھانوی تصوف کے مسائل بیان کرنے میں خاصے محتاط تھے پھر بھی یہ حال ہے، رہے دوسرے متصوفین تو وہ بدعتوں کو عین مطلوب قرار دینے میں کافی جری ہیں انہی میں سے