کتاب: روشنی - صفحہ 206
۲: خندق کے واقعہ پر قیاس کرکے ان اشغال کو خاص طور پر جوگیوں کے ’’حبس دم‘‘ کو اختیار کرنا قیاس مع الفارق پر عمل کرنا ہے، کیونکہ اولاً تو یہ ثابت نہیں کہ خندق کھودینے کا مشورہ سلمان رضی اللہ عنہ نے دیا تھا، بلکہ یہ ابومعشر سندی کی بے سند روایت پر مبنی ہے ثانیاً جہاد بلاشبہ اپنے مقصد کے لحاظ سے اسلام کی سب سے بلند چوٹی ہے۔[1] لیکن جہاد کے اعمال، اس کے ذرائع اور وسائل میں سے کوئی بھی چیز منصوص نہیں ہے، کیونکہ ان کا شمار عبادات میں نہیں ہوتا، جبکہ اذکار و اشغال عین عبادات ہیں لہٰذا جو ان میں سے منصوص نہیں وہ مردود اور باطل ہے۔
مولانا تھانوی نے صوفیانہ اشغال کے جواز پر اپنی دوسری کتاب، مسائل تصوف احادیث کی روشنی میں، میں ’’سترہ‘‘ کی حدیث سے استدلال کیا ہے، مگر ایک تو یہ حدیث ضعیف ہے اور قابل استدلال نہیں دوم وہ بصراحت شغل کی صحت پر دلالت نہیں کرتی اس کے لیے اس میں تاویل کرنی پڑتی ہے۔ بہرحال حدیث کا ترجمہ اور اس سے استدلال درج ذیل ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’جب تم میں سے کوئی نماز پڑھنے لگے تو اپنے سامنے کوئی چیز رکھ لے اور اگر نہ پائے تو اپنا عصا کھڑا کرلے اور اگر اس کے ساتھ عصا نہ ہو تو ایک خط کھینچ لے، پھر اس کے سامنے سے گزرنے والے سے اس کو کوئی نقصان نہ ہوگا۔‘‘[2]
مولانا تھانوی فرماتے ہیں:
’’بزرگوں نے جو اشغال تجویز کیے ہیں ان سب سے مقصود اصل یہ ہے کہ قلب کا انتشار جو بوجہ تشویش افکار کے ہے دفع ہوکر جمعیت خاطر اورخیال کی یکسوئی حاصل ہو، تاکہ اس کے خوگر ہونے سے توجہ ام الی اللہ جو کہ مبتدی کو بوجہ غیب ہونے مدرک کے اور مزاحم ہونے افکار مختلف و حیات حاضرہ کے متعذر ہے، سہل ہوجائے، کیونکہ بتصریح علماء اسرار
[1] ترمذی: ۲۶۱۶۔ نسائی ۱۱۳۹۴۔ ابن ماجہ: ۳۹۷۳.
[2] ابوداؤد:۶۸۹.