کتاب: روشنی - صفحہ 205
صوفیانہ اشغال کی صحت پر ایک ضعیف روایت سے ان کے استدلال کا نمونہ پیش کروں گا، مگر پہلے میں خود انہی کے الفاظ میں اشغال کی حقیقت بیان کردینا چاہتا ہوں، فرماتے ہیں:
اشغال کا مقصود اصل یہ ہے کہ قلب کا انتشار جو بوجہ تشویش افکار کے ہے رفع ہوکر جمعیت خاطر اور خیال کی یکسوئی حاصل ہو، تاکہ اس کے خوگر ہونے سے توجہ تام الی اللہ جو کہ مبتدی کو بوجہ غیب ہونے مدرک کے اور مزاحم ہونے افکار مختلف اور حیات حاضرہ کے متعذر ہے، سہل ہوجائے۔ [1]
اس کے بعد انھوں نے اشغال کے ایک خاص عمل ’’حبس دم‘‘ کے جواز پر خندق کھودنے کے واقعہ سے استدلال کیا ہے کہ اس کے فارسی تدبیر ہونے کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی۔ فرماتے ہیں:
غرض جتنے اشغال ہیں جمع خاطر ہی کے لیے ہیں مقصود بالذات نہیں اور اس میں مشائخ نے یہاں تک وسعت دی ہے کہ ’’جوگیوں‘‘ تک سے بعض اشغال لیے ہیں، مثلاً ’’حبس دم‘‘ جوگیوں کا شغل ہے، مگر چونکہ یہ ان کا مذہبی شعار نہیں اور خطرات دفع کرنے کے لیے نافع ہے اس لیے اس کو بھی اپنے ہاں لے لیا ہے…، کیونکہ یہ اخذ تدبیر میں ہے نہ کہ کسی مذہبی یا قولی شعار میں اور اس کے جواز کی دلیل خندق کا واقعہ ہے تو یہ انتظام و تدبیر فارسیوں کا کوئی قومی یا مذہبی شعار نہ تھا، محض ایک تدبیر تھی اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دے دی۔ [2]
مولانا نے اپنے اس ارشاد سے قارئین اور اپنے مریدوں کو جو فریب دینے کی کوشش کی ہے اس کی نقاب کشائی ضروری ہے۔
۱: اذکار و اشغال اپنے ظاہر اور اپنے مزاج دونوں اعتبار سے خالص دینی ہیں ان کے مقصود بالذات ہونے کی نفی کرکے اور ان کے عارضی تدابیر ہونے کا اعلان کرکے ان کی حقیقت نہیں بدل سکتی، پھر صوفیا کا اس پر جس پابندی سے عمل ہے اس کی روشنی میں کون ہے جو بسلامتی ہوش و حواس ان کو صرف عارضی تدابیر مانے گا؟
[1] شریعت و طریقت، ص ۲۷۳.
[2] ص۲۷۳۔ ۲۷۴.