کتاب: روشنی - صفحہ 204
سے موصوف رہیں۔ اللہ ہی کی طرف ہماری توجہ ہو اور یہ احساس ہمارے اندر ہر وقت تازہ اور زندہ رہے کہ وہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے اس اللہ اور اس کے رسول نے ہماری توجہ میں یکسوئی اور خیالات اور وساوس سے ہمارے ذہنوں کو پاک رکھنے کے جو طریقے ہمیں بتادیے ہیں اور اس کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے اس توجہ اور یکسوئی کا جو نمونہ پیش کردیا ہے وہی ہمارے لیے بس ہے۔ یہ صحیح ہے کہ غور و فکر سے بعض عبادتوں کی حکمتیں ہمارے اوپر منکشف ہوجاتی ہیں اور اللہ اور رسول کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ادا کرتے ہوئے بعض عبادتوں کے عمدہ نتائج بھی ہم دیکھ لیتے یا دیکھ سکتے ہیں، مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اپنی عقل و نظر استعمال کرتے ہوئے نئی عبادتیں اور اذکار وضع کرنے اور توجہ و یکسوئی یا جمعیت خاطر کی غرض سے کچھ اشغال گھڑنے کے مجاز ہیں۔ لیکن اس بدیہی حقیقت کے باوجود ارباب تصوف نے نہ صرف یہ کہ مسنون اور ماثور اذکار و اوراد کے علاوہ کچھ اذکار و اوراد خود گھڑلیے ہیں، بلکہ ان کو ادا کرنے کے لیے کچھ ایسے اعمال ایجاد کرلیے ہیں جن کو وہ اشغال کا نام دیتے ہیں، اگر ان اشغال کو ریاضتوں کا نام دیا جائے تو بہتر ہے، چونکہ یہ اذکار اور اشغال دونوں من گھڑت اور صوفیا کی خانہ ساز ہیں اس لیے ان ان پر بدعت کے الزام سے بچنے کے لیے ان کو روحانیت پیدا کرنے یا توجہ الی اللہ میں یکسوئی پیدا کرنے یا جمعیت خاطر کے لیے عارضی تدابیر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مولانا تھانوی کا اپنی کتابوں میں یہ معمول رہا ہے کہ وہ صوفیانہ افکار، اعمال و اذکار اور ریاضتوں کو دینی رنگ دینے کی غرض سے ان کی اصل کتاب و سنت میں تلاش کرتے ہیں اس کے لیے کبھی ان کو قرآنی آیات اور احادیث میں غلط تاویلات کرنی پڑتی ہیں اور کبھی ضعیف اور غیر معتبر روایتوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اوپر تلبیہ کے کلمات میں بعض صحابہ کرام کی جانب سے اضافے سے صوفیا کی بدعتوں کے جواز پر ان کے استدلال اور اس کی نکارت تفصیل سے بیان کی جاچکی ہے۔ یہاں میں