کتاب: روشنی - صفحہ 203
کہ نماز جو ایمان کے بعد عملی ارکان میں سرفہرست ہے اس کو ذکر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿ إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي ﴾ (طٰہٰ:۱۴) ’’درحقیقت میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے، لہٰذا تو میری عبادت کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر۔‘‘ کتاب و سنت میں عبادات ادا کرتے ہوئے خشوع و خضوع پر بڑا زور دیا گیا ہے۔ سورۃ المومنون کی پہلی آیت میں جن مومنوں کی کامیابی کی خبر دی گئی ہے ان کی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنی نمازوں میں فروتنی کا اظہار کرتے ہیں، ارشاد الٰہی ہے: ﴿ قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ (1) الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ﴾ (المؤمنون:۱تا۲) ’’یقینا کامیاب ہوگئے وہ ایمان والے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔‘‘ خشوع کے معنی ہیں، جھک جانا، دب جانا، فروتنی دکھانا، عجز و انکسار کا اظہار کرنا، یہ خشوع جسمانی بھی ہوتا ہے اور قلبی بھی اور اس کا محرک نمازی کا یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ عظمت و جلال کے مالک ربّ کائنات کے سامنے کھڑا ہے، اس کے سامنے جھکتا ہے اور اس کی ہیبت و جلال کے سامنے اپنا سر زمین پر رکھ دیتا ہے، نماز کی ہر حرکت اور فعل میں اس کے سکھائے ہوئے کلماتِ حمد و ثنا ادا کرتا ہے اور قیام میں اس کے کلام کی تلاوت کرتا ہے نمازی کی یہ کیفیت درحقیقت اس کے اس احساس کی پیداوار ہوتی ہے کہ گویا وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے اور اس یقین سے اس کا دل معمور ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو دیکھ رہا ہے، جیسا کہ حدیث جبریل میں صراحت ہے۔ معلوم ہوا کہ جس اللہ نے اپنے محبوب رسول کے ذریعہ ہمیں عبادت کی مختلف قسموں کا حکم دیا ہے اور ہم سے یہ طلب کیا ہے کہ ان کو ادا کرتے ہوئے ہم خشوع و خضوع کی صفت