کتاب: روشنی - صفحہ 202
اعمال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور طریقے کے خلاف تھے اس لیے آپ نے نہ صرف یہ کہ ان کو قبول نہ فرمایا، بلکہ انھیں اختیار کرنے والوں کو اپنی نسبت کے دائرہ سے خارج فرمادیا اور یہ اصول بیان فرمادیا کہ میرے طریقے سے اعراض اور بے اعتنائی برتنے والے کا مجھ سے کوئی رشتہ اور تعلق نہیں ہے۔ مذکورہ بالا وضاحتوں کی روشنی میں تلبیہ کے کلمات میں بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اضافے سے مولانا تھانوی کے بعض صوفیانہ اذکار کی ایجاد کے جواز پر استدلال کی غلطی عیاں ہوجاتی ہے۔ اس مسئلے کو مزید واضح کرنے سے قبل میں ان کے ایک اور استدلال کا تذکرہ کردینا چاہتا ہوں تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ ارباب تصوف کس طرح کی سوچ رکھتے ہیں اور مغالطے دینے میں ان کو کتنی مہارت ہوتی ہے۔ اذکار و اوراد کا تعلق عبادات سے ہے اور عبادات اپنی تمام تر تفصیلات کے ساتھ مکمل ہیں، ان کے اوقات، ان کے الفاظ، ان کی تعداد اور ان کے طریقے وغیرہ ہر چیز کو کتاب و سنت میں بیان کردیا گیا ہے لہٰذا ان میں کوئی کمی بیشی یا ان کی ادائیگی کے لیے اپنی طرف سے کوئی طریقہ گھڑنا باطل اور مردود ہے، ایسا اس لیے ہے کہ عبادات جن کے ہم مکلف بنائے گئے ہیں ان کا علم ہم کو شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بتانے سے حاصل ہوا ہے چاہے وہ قرآن کے ذریعہ ہو ہو یا حدیث کے ذریعہ، اگر وحی متلو یا وحی غیر متلو کے ذریعہ ہم کو یہ بتا نہ دیا جاتا کہ کون سے اعمال عبادات میں داخل ہیں اور کون سے نہیں تو ہم اپنی عقل یا اجتہاد کے ذریعہ ان کو معلوم نہ کرسکتے تھے۔ عبادات چاہے وہ فرض اور واجب ہوں یا سنت اور مستحب ان کے طریقے، اوقات اور الفاظ ہر چیز بیان کردی گئی ہے اور ہمیں یہ آزادی نہیں بخشی گئی ہے کہ ہم اپنی طرف سے کوئی نئی عبادت ایجاد کریں یا منصوص عبادات کے طریقوں، اوقات، اعداد اور الفاظ وغیرہ میں تصرف کریں۔ جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا کہ اذکار و اوراد عین عبادت ہیں اور اس کی دلیل یہ ہے