کتاب: روشنی - صفحہ 201
ایمان لایا۔‘‘ اگر تم مرگئے تو فطرت پر مرو گے۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ کلمات دہرائے اور جب ’’اللہم آمنت بکتابک الذی انزلت‘‘ پر پہنچا تو کہا: ’’وبرسولک الذی أرسلت‘‘ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، ’’ونبیک الذی أرسلت‘‘ غور فرمائیے کہ تلبیہ کے کلمات میں جب بعض صحابہ نے بعض الفاظ بڑھادیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرما کر ان کی تصویب و تقریر فرمادی اور یہاں جب صحابی نے نبیک کی جگہ رسولک کہہ دیا تو آپ نے ٹوک کر اصلاح فرمادی۔ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ علماء نے اس کی بہت ساری وجوہات بیان کی ہیں، جن کو نقل کرکے میں اپنے قارئین کو الجھن میں مبتلا کرنا نہیں چاہتا صرف ایک کلیدی بات پر اکتفا کرتا ہوں اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو من جملہ اور ذمہ داریوں کے شریعت سازی کی ذمہ داری بھی دی تھی، لہٰذا آپ اپنے کسی قول یا فعل کے بارے میں اپنی امت کے کسی فرد کے سامنے جوابدہ نہ تھے کہ اپنے قول یا فعل کی دلیل پیش کرتے اور آپ کی اس حیثیت میں کوئی بھی شخص آپ کا شریک نہیں تھا، نہیں ہے اور نہ قیامت تک ہوگا اور بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال اور افعال پر قیاس کرکے دین میں کوئی بھی اضافہ نہیں کیا جاسکتا، اس قبیل کا ہر اضافہ مردود اور اضافہ کرنے والا گمراہ اور اللہ و رسول کا نافرمان ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اُن افعال یا اعمال کی مثال میں جن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے طریقہ سے متصادم قرار دے کر رد فرمادیا ان تین صحابیوں کے واقعہ کو پیش کیا جاسکتا ہے جن میں سے ایک نے پوری پوری رات نمازیں پڑھنے، دوسرے نے ہمیشہ بلاناغہ روزہ رکھنے اور تیسرے نے تجرد کی زندگی گزارنے کے عزائم کا اظہار کیا تھا، حالانکہ ان کے ان عزائم کے پیچھے اسی خشیت الٰہی اور تقویٰ کا جذبہ کار فرما تھا جو دین میں مطلوب ہے، لیکن چونکہ یہ