کتاب: روشنی - صفحہ 198
تھے‘‘ یا ان کلمات سے زیادہ نہیں کہتے تھے تو یہ ان کے علم پر مبنی ہے امر واقعہ کا اظہار نہیں ہے۔ (۲)… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دور مبارک دور تشریع یا دور تعلیم و تربیت تھا جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اگر بعض ایسے اقوال یا افعال کا صدور ہوجاتا جو ان کے ذاتی اقوال یا افعال ہوتے اور جن صحابہ سے ان کا صدور ہوتا یا تو وہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اطلاع دے دیتے یا دوسرے صحابہ کے ذریعے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا علم ہوجاتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کسی قول یا فعل کو ردّ فرمادیتے اور بعض اقوال یا افعال کو سند قبولیت عطا کردیتے، جن اقوال یا افعال کو آپ ردّ فرمادیتے وہ تو قیامت تک کے لیے قابل رد رہیں گے رہے وہ اقوال اور افعال جن کو آپ کی پسندیدگی، رضا اور قبولیت حاصل ہوجاتی ان کو علم حدیث کی اصطلاح میں ’’تقریر‘‘ کہتے ہیں، یہ تقریر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول اور فعل کی طرح دین میں معتبر ہے۔ اوپر کی وضاحت کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلماتِ تلبیہ سے زاید جو کلمات حضرت عمر اور ان کے بیٹے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے منسوب ہیں ان کا شمار حدیث کی اسی قسم میں ہوتا ہے جس کو تقریر کہتے ہیں اور چونکہ ان کا صدور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک میں ہوا۔ آپ نے انہیں سنا اور ان پر کوئی نکیر نہیں فرمائی اس لیے ان سے نئے اذکار و اوراد کی ایجاد کے جواز پر استدلال نہیں کرسکتے، کیونکہ مسلمانوں کے جس طبقہ نے نئے نئے اذکار و اوراد، نئی نئی ریاضتیں اور نئے نئے نوافل ایجاد کرلیے ہیں وہ دین کی تکمیل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات پاجانے کے بعد کیا ہے لہٰذا وہ سراسر گمراہی ہے اور ضلالت سے عبارت ہیں۔ اس مسئلے کی سنگینی اور شریعت کی نظر میں اس کی نکارت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو پہلے مثالوں سے واضح کردیا جائے، پھر صوفیا کے ان مغالطوں کی نقاب کشائی کی جائے جو بدعت کو عین تقاضائے دین ثابت کرنے کے لیے دیتے رہتے ہیں اور جن کا ایک نمونہ اوپر پیش کیا گیا ہے۔ تقریر کی دوسری مثال: اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاحب کو ایک