کتاب: روشنی - صفحہ 197
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نہیں بنائے تھے کہ وہ ان کی پابندی کرتے اسی طرح آپ نے ان کو تلبیہ کا حکم تو دیا تھا، مگر ان کو اپنے کسی قولی ارشاد سے اس کے الفاظ نہیں سکھائے تھے، چنانچہ حضرت سائب بن خلاد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((أتانی جبریل فأمرنی أن امرأ صحابی أن یرفعوا أصواتہم بالإھلال أو التلبیۃ۔))[1]
’’میرے پاس جبریل آئے اور مجھے حکم دیا کہ میں اپنے اصحاب کو یہ حکم دے دوں کہ وہ اہلال یا تلبیہ کہتے ہوئے اپنی آواز بلند رکھیں۔‘‘
یاد رہے کہ اہلال اور تلبیہ ایک ہی چیز ہے، راوی کو یاد نہیں رہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلال فرمایا تھا یا تلبیہ اسی وجہ سے اس نے حرف ’’او‘‘ استعمال کیا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:
((یُلبی المعتمر حتی یستلم الحجر۔))[2]
’’عمرہ کرنے والا حجر اسود کا استلام کرنے تک تلبیہ کہتا رہے۔‘‘
یہ حدیث صحیح ہے، لیکن موقوف ہے۔
لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی حدیث میں دوسرے اذکار کی طرح تلبیہ کے صیغے نہیں بتائے، اگرچہ خود تلبیہ کہہ کر اس کا نمونہ پیش کردیا، مگر چونکہ آپ نے خود تلبیہ کے معروف صیغے میں مختلف کلمات ارشاد فرمائے ہیں، جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں تصریح کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تلبیہ میں: ’’لبیک إلٰہ الحق لبیک‘‘ فرمایا ہے (نسائی: ۲۳۷۹) اس لیے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اپنے تلبیہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تلبیہ کے ساتھ بعض کلمات کا اضافہ کردیا۔
رہا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ فرمانا کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات پر اضافہ نہیں فرماتے
[1] ابوداؤد : ۱۸۱۴۔ ترمذی : ۸۲۹۔ نسائی : ۲۷۵۲۔ ابن ماجہ : ۲۹۲۲.
[2] ابوداؤد : ۱۸۱۷۔ ترمذی : ۹۱۹.