کتاب: روشنی - صفحہ 196
’’حاضر ہوں اے اللہ! میں حاضر ہوں، حاضر ہوں، حاضر ہوں، تیری سعادت بخش کی امید میں حاضر ہوں، بھلائی صرف تیرے ہاتھوں میں ہے، میں حاضر ہوں، رغبت صرف تیری طرف ہے اور عمل صرف تیرے لیے ہے۔‘‘
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے والد ماجد عمر رضی اللہ عنہ کی اقتدا کرتے ہوئے اپنے تلبیہ میں مذکورہ کلمات کا اضافہ کردیتے تھے۔
اور سنن ابوداؤد میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں ہے:
((والناس یزیدون: ذا المعارج ونحوہ من الکلام والنبی صلي الله عليه وسلم یسمع فلا یقول لہم شیئا۔)) (۱۸۱۳)
’’اور لوگ (تلبیہ کے الفاظ میں) اضافہ کرتے ہوئے ذی المعارج اور اس سے ملتا جلتا کلمہ بڑھا دیتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سنتے اور کچھ نہ فرماتے۔‘‘
مولانا تھانوی مذکورہ حدیث سے اوراد ماثورہ میں اضافے کے جواز پر استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’بعضے متشددین حضراتِ صوفیہ پر بعضے اذکار کے ایجاد پر اعتراض بدعت کا کرتے ہیں، اس حدیث سے اس ایجاد کا جواز ثابت ہے، کیونکہ لبیک منقول پر جس قدر زیادت تھی وہ ایجاد ہی کی فرد ہے اور مرجح اس ایجاد جائزہ کا غلبہ ہے کسی حال کا یہ قصد تحصیل ہے کسی حال کا، البتہ بدعت وہ ایجاد ہے جو جزو دین بنادیا جائے گو فی نفسہٖ وہ عمل مباح ہی کیوں نہ ہو اور اگر فی نفسہٖ بھی غیر مباح ہو تو اور بھی اشنع اور اقبح ہے۔‘‘[1]
مولانا محترم نے مذکورہ حدیث سے صوفیانہ اذکار کی ایجاد پر جو استدلال کیا ہے وہ استدلال سو فیصد غلط ہے جس کی وجوہات حسب ذیل ہیں:
(۱)… یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا پہلا حج تھاجس کے احکام
[1] مسائل تصوف، احادیث کی روشنی میں، ص ۱۳۳.